’پولیس حراست میں آرام تب ملتا تھا جب اہلکار چھاپے پر جاتے‘

1997 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 26 جون کو تشدد کے متاثرین کی حمایت میں عالمی دن کے طور پر نامزد کیا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے تشدد کے متاثرین کی حمایت کا عالمی دن ہر سال 26 جون کو منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو یہ یاد دلایا جا سکے کہ انسانی تشدد نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ یہ ایک جرم بھی ہے۔

اس دن کا پس منظر

اقوام متحدہ کے مطابق جون 1987 کو تشدد کے خلاف کنونشن نافذ ہوا۔ یہ انسانی حقوق کو گلوبلائز کرنے اور اس بات کو تسلیم کرنے کے عمل میں ایک اہم قدم تھا کہ تشدد اور غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کو عالمی طور پر غیر قانونی ہونا چاہیے۔

1997 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال 26 جون کو تشدد کے متاثرین کی حمایت میں عالمی دن کے طور پر نامزد کیا ہوا ہے۔

تشدد کے متاثرین کی حمایت کا پہلا بین الاقوامی دن 26 جون 1998 کو منایا گیا۔ یہ وہ دن تھا جب اقوام متحدہ نے تمام حکومتوں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ ہر جگہ تشدد اور تشدد کرنے والوں کو شکست دینے کے لیے اقدامات کریں۔

اسی سال انسانی حقوق کے عالمی منشور کی 50 ویں سالگرہ منائی گئی، جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ ’کسی کو بھی ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سزا نہیں دی جائے گی۔‘

نور حسن، حجرہ شاہ مقیم کے رہنے والے ہیں۔

نور حسن پر 2000 میں اپنے چچا کو زمین کے تنازع پر قتل کرنے کا الزام لگا اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔ لیکن 2009 میں ہائی کورٹ نے انہیں عدم دستیابی ثبوت کی بنیاد پر باعزت بری کر دیا۔

نور حسن کے مطابق اس وقت ان کی عمر 38 سے 40 کے درمیان تھی جب پولیس نے انہیں اپنی حراست میں لیا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے مدعی کے ’دباؤ‘ میں آکر ان پر حراست کے دوران 18 دن ’تشدد‘ کیا تاکہ وہ اپنا جرم قبول کر لیں۔

’جب مجھے حوالات میں لے کر گئے تو وہاں مجھ پر تشدد شروع کر دیا۔ کہتے تھے کہ میں جرم قبول کروں لیکن میں نے جرم نہیں کیا تھا تو میں مانتا کیسے؟ مجھے 18 دن وہ مارتے رہے۔‘

’انہوں نے میرے ہاتھ باندھ دیے اور چار پانچ اہلکار میرے پیچھے پڑگئے کہ میں لیٹ جاؤں، جب میں نہیں لیٹا تو انہوں نے مجھے ڈنڈے مارے اور میری ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ میں کہتا رہا کہ مجھے درد ہو رہی ہے تو کہتے تھے کہ ابھی انہوں نے مجھے اور مارنا ہے۔‘

ںور نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد انہوں نے مجھے دھکہ دیا۔ میرے ہاتھ تو پیچھے بندھے تھے میں منہ کے بل گرا تو میرے دانت ٹوٹ گئے جو آج بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔‘

نور حسن نے بتایا کہ ’پولیس حراست میں آرام کا موقع صرف تب ملتا تھا جب پولیس اہلکار کسی چھاپے کے لیے وہاں سے جاتے تھے ورنہ وہ مجھے سونے بھی نہیں دیتے تھے۔‘

’18 دن بعد انہوں نے مجھے مارنے کے بعد میرا چالان پیش کر دیا۔ اس کے بعد میں جیل میں چلا گیا اور پھر میں جیل میں ہی رہا۔‘

نور نے بتایا کہ 2000 میں جب انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو انہیں ساہیوال جیل میں رکھ گیا۔ وہاں بھی ان کی ملاقات کم از کم 70 ایسے ملزمان سے ہوئی جو بے گناہ تھے اور پولیس تشدد سے جرم قبول کر کے جیل تک پہنچے تھے۔

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق جون 2020 سے جون 2021 کے دوران پولیس کے مبینہ تشدد سے 19 افراد ہلاک ہوئے جن میں دو نابالغ بھی تھے۔

جبکہ جسٹس پراجیکٹ پاکستان کی تحقیق کہتی ہے کہ بعض اوقات پولیس حراست میں تشدد کی وجہ اقبال جرم یا پھر برآمدگی کروانا ہوتا ہے۔ جبکہ پولیس کے مطابق ملزمان پر تشدد اب ایک جرم ہے اس لیے اب ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے ترجمان محمد شعیب نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’جو ہم نے سٹڈی کی وہ فیصل آباد کی تھی جو 2006 سے 2012 کے دوران کی گئی جن میں 1800 سے زائد میڈیکو لیگل سرٹفیکیٹس کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں 1400 سے زائد میں تشدد کے واضح شواہد سامنے آئے۔‘

’یہ ایم ایل سیز ان لوگوں کے تھے جن کا پولیس کے ساتھ معاملہ ہوا۔ ان کو گرفتار کیا گیا یا وہ تھانے خود گئے۔ یہ قیدی نہیں تھے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں پولیس نے حراست میں لیا۔ یہان تک کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد جو 80 فیصد سے زائد بنتی ہے جن پر تشدد ہوا اور ان کے ایم ایل سیز بنے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ’ثقافتی تضحیک‘ اور ’جنسی نوعیت کے تشدد‘ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور کامران عادل اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’ہمارے سسٹم میں ایسے روایتی طریقے رائج رہے ہیں لیکن اب وہ رفتہ رفتہ کم ہو رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس آرڈر 2002 میں اب اسے ایک جرم قرار دیا جا چکا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پولیس حراست میں تشدد ایک جرم ہے بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہیں۔ آرٹیکل 155 اور 156 دوآرٹیکلز متعاراف کروائے گئے تھے۔ ان میں کہا گیا ہے کہ اگر پولیس افسر اپنی طاقت کو اس طرح استعمال کرے اور تشدد کرے تو اس کے خلاف مجرمانہ کارروائی ہو سکتی ہے۔

ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کامران عادل کا کہنا ہے کہ ’میں خود عدالتوں میں پیش ہوا اور سوال پوچھا گیا کہ آپ یہ بتائیں کہ یہ وہی والے نوٹ ہیں جو بینک ڈکیتی میں گئے تھے تو ایسی چیزیں ہمارے انصاف کے نظام میں ہیں جن کو ہمیں ٹھیک کرنا ہے جس کی وجہ سے کچھ چیزیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔

’کچھ پولیس افسر تشدد کا سہارا لیتے ہیں لیکن میں اس بات پر اصرار کروں گا کہ یہ ٹرینڈ اب کافی کم ہو گیا ہے۔ ویسے بھی ادارہ اور ہماری لیڈر شپ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کسی قسم کے تشدد کا سہارا نہ لیا جائے بلکہ جدید طریقوں سے تحقیقات کو مکمل کیا جائے۔‘

پولیس کے اعلیٰ افسر کا کہنا تھا کہ اب موبائل اور آئی ٹی کا دور ہے۔ ایسے طریقے کافی کم ہو گئے ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی بیسڈ تفتیش زیادہ ہو رہی ہے۔

اس حوالے سے جے پی پی کے ترجمان محمد شعیب کا کہنا ہے کہ ’پولیس تشدد کے خلاف پاکستان میں کوئی باقاعدہ قانون موجود نہیں حالاں کہ پاکستان کا آئین بھی شہریوں کو تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح سے جو اور قوائد موجود ہیں جیسے پولیس آرڈر 2002 ہے سی آر پی سی ہے جس کے اندر گرفتاری اور تحقیقات کے حوالے سے گائڈ لائنز موجود ہیں لیکن یہ قوانین ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔

’اس کی وجہ یہ ہے کہ موجود ہ قوانین کے تحت آزادانہ تحقیقات ممکن نہیں اور عموماً پولیس اہلکار ہی تشدد کی شکایات کی بھی تحقیق کرتے ہیں یا پھر دباؤ ڈال کر شکایت کنندگان سے صلح کی جاتی ہے یا شکایت واپس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایک باقاعدہ قانون بنانے کی ضرورت ہے۔‘

ور حسن کہتے ہیں کہ جتنا عرصہ جیل میں گزارا وہ تکلیف میں گزارا۔ ’جیل میں یہی خیال آتا تھا کہ اگر انہوں نے مجھے جھوٹی شہادتیں دے کر سزائے موت کروا دی اور پولیس والوں نے بھی مجھے گناہ گار لکھ دیا ہے۔ میرے والد کی بات کوئی نہیں سن رہا تھا۔‘

نور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب پولیس انہیں پکڑ کر لے گئی تو ان کی بیوی اس ڈر سے کہ ’مخالفین انہیں زیادتی‘ کا نشانہ نہ بنا دیں وہ اپنے چھ بچوں کو لے کر قصور اپنے والدین کے گھر چلی گئیں اور اب بھی وہ وہیں رہتی ہیں۔

نور حسن نے بتایا کہ انہیں چھڑوانے کے لیے والد نے تھوڑی بہت زمین تھی وہ بیچ دی، ان کی بیوی نے بھی بچوں کو پالنے کے لیے ادھار لینا شروع کیا جو بعد میں پانچ سے سات لاکھ کی رقم تھی جسے وہ اب تک اتار رہے ہیں۔

نور حسن کے پاس اب ایک چھوٹا سا زمین کا ٹکڑا ہے جس پر وہ کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور اس سے آنے والی رقم سے وہ گھر کا نظام بھی چلا رہے ہیں اور ادھار بھی اتار رہے ہیں جبکہ ابھی ان کی تین بیٹیاں شادی کی عمر کی ہیں مگر وہ ان کی شادی کا انتظام نہیں کر پا رہے۔  

’اس سب میں میرے بچے پڑھائی سے بھی محروم رہ گئے۔ آخر میں ہی کمانے والا تھا میں ہی چلا گیا تو وہ کیسے پڑھتے؟ ابھی بھی وہ وقت یاد آتا ہے تو مجھے رونا آجاتا ہے، بہت برا وقت آیا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی