ایل این جی پر انحصار بجلی کے موجودہ بحران کا باعث: ماہرین

پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ نے گذشتہ ہفتے جولائی کے لیے ٹینڈر کیے گئے ایل این جی کے چار کارگوز کا سودا قیمت زیادہ ہونے کے باعث ختم کیا۔

16 نومبر 2016 کی اس تصویر میں پاکستان کے شہر فیصل آباد میں ایک سرکاری اہلکار بجلی گھر کے اعداد و شمار نوٹ کر رہا ہے۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے کئی شہروں کو اس وقت گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے(اے ایف پی)

پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں کو اس وقت گھنٹوں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، جس پر قابو پانے کی کوششوں کے سلسلے میں جون کے دوران پاکستان نے بین الاقوامی منڈی سے مائع قدرتی گیس خریدنے کی كم از كم تین کوششیں کیں، لیکن عین وقت پر لیکیوفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ معاملات ختم کرنا پڑے۔

ایل این جی ٹینڈرز ختم کرنے کی ایک وجہ بین الاقوامی منڈی میں مائع گیس کی قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ ہے، جو روس یوکرین جنگ کا شاخسانہ بتایا جا رہا ہے۔

توانائی سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے پاکستان بین الاقوامی منڈی میں مائع گیس کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی ایل این جی خرید نہیں پا رہا ہے۔

تھینک ٹینک اسلام آباد سٹریٹیجیک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ (آئی ایس ایس آئی) سے منسلک محقق میاں محمد سالک کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک زیادہ قیمت پر ایل این جی خرید رہے ہیں جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا: ’ہمارے ساتھ سودا طے ہونے کے باوجود بین الاقوامی کمپنیاں ایل این جی یورپی ملکوں کو بیچ رہی ہیں، کیونکہ وہاں سے انہیں زیادہ قیمت ملتی ہے۔‘

مائع قدرتی گیس کی خریداری کے ذمہ دار سرکاری ادارے پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ (پی ایل ایل) نے گذشتہ ہفتے جولائی کے لیے ٹینڈر کیے گئے ایل این جی کے چار کارگوز کا سودا قیمت زیادہ ہونے کے باعث ختم کیا.

پیٹرولیم کے وزیر مملکت ڈاكٹر مصدق ملک نے بھی اس صورت حال كی وضاحت كچھ اس طرح كی: ’پاکستان صرف یورپی ممالک کی قوت خرید کا مقابلہ نہیں کر سکتا، جو (ایل این جی کے) انہی ذخائر کے ممکنہ گاہک بھی ہیں، جن کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے۔‘

توانائی بحران

پاکستان جولائی کے لیے ایل این جی ابھی تک خرید نہیں پایا جسے ماہرین ایک بحران جیسی صورت حال قرار دیتے ہیں۔

میاں محمد سالک کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے جس کا ثبوت ملک کے طول و عرض میں روزانہ کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہے۔

وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے جولائی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں مزید اضافے اور سردیوں کے دوران گیس کی ترسیل میں کمی سے متعلق خبردار کیا ہے۔

ملک کی موجودہ حکومت توانائی کے تحفظ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے، اور اس سلسلے میں سرکاری دفاتر کے علاوہ بڑے شہروں میں کاروباری مراکز اور کارخانوں کے اوقات کار کو کم کر دیا گیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

وفاقی حکومت نے گیس کی گھریلو قلت کو کم کرنے کے لیے روس سمیت مختلف برآمد کنندگان سے گفت و شنید شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے کے لیے کوئی نیا حکومتی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔

 دنیا میں کووڈ 19 کی وبا کے باعث سپلائی میں خلل اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان میں گھریلو صارفین کے لیے بجلی کے اخراجات کو 100 فیصد سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔

دوسری طرف حکومت جولائی میں بجلی کے نرخوں میں 47 فیصد تک اضافے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ مہنگے ایندھن کی درآمد کی وجہ سے ہونے والے کچھ نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی کی کل کھپت 24 ہزار میگا واٹ ہے جس میں اسے آٹھ ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے۔

پاکستان بجلی کی مجموعی پیداوار کا 33 فیصد پانی سے حاصل کرتا ہے جبکہ 25 فیصد گیس خصوصاً ایل این جی سے بناتا ہے، اور باقی بجلی جوہری اور دوسرے ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔

یورپ میں ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان مائع گیس کی سپاٹ پرچیزنگ (موقع پر خریداری) کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے، اس لیے اب اسے جولائی میں قطر سے طویل المیعاد معاہدے کے تحت ملنے والے 80 کروڑ کیوبک فٹ کے آٹھ کارگوز پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔

ایل این جی کی قلت کے باعث پاکستان دسمبر 2021 سے بجلی کی پیداوار کم کرنے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں ملک میں 10 سے 18 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔

میاں محمد سالک کے خیال میں بین الاقوامی منڈی میں ایل این جی کی قیمتوں کی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں مستقبل قریب میں بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

قومی اسمبلی نے بدھ کو آئندہ مالی سال کے دوران مرحلہ وار بنیادوں پر پیٹرولیم لیوی ٹیکس میں 50 روپے اضافے کی منظوری بھی دی ہے۔

میاں محمد سال کنے ایک تحقیقاتی مقالے میں لکھا کہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں متوقع اضافے کے باعث پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت، زرعی شعبہ اور دوسرے کئی شعبے بری طرح متاثر ہوں گے۔

ایل این جی پر انحصار

پاکستان ایل این جی کے سینئیر عہدے پر منسلک رہنے والے شعیب وارثی کا کہنا تھا کہ ایل این جی پر انحصار بڑھانے نے پاکستان کے لیے نوانائی کے شعبے میں مسائل پیدا کیے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ایل این جی کی خریداری کی غرض سے قطر کے ساتھ ہونے والے طویل المعیاد معاہدے اس وقت ٹھیک تھے لیکن اب ملک کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور وہ کافی نہیں رہے۔

میاں محمد سالک کے خیال میں پاکستان کا ایل این جی پر انحصار بہت زیادہ بڑھا دیا گیا ہے جبکہ مائع گیس کے استعمال کے سلسلے میں ملکی کارکردگی بہت بہتر نہیں ہے۔

میاں سالک نے اپنے تحقیقاتی مقالے میں لکھا کہ پاکستان قدرتی گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک میں 29 ویں نمبر پر ہے جس کی گیس نکالنے کی مجموعی صلاحیت تقریباً 24 کھرب کیوبک فٹ ہے، جو چار ارب کیوبک فٹ یومیہ گیس بنتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دونوں قدرتی گیس کی کمپنیوں کے پاس آئندہ دس سے بارہ سال تک قدرتی گیس موجود ہو گی جبکہ اس وقت پاکستان ایل این جی درآمد کرنے والے ملکوں میں نویں نمبر پر ہے۔

وہ اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ پاکستان میں گھریلو صارفین کو قدرتی گیس کی ترسیل روز بروز کمی جبکہ ضرورت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو بہت ہی تشویشناک صورت حال ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ قدرتی گیس کی کمی کے باعث پاکستان نے گذشتہ ایک دہائی سے درآمدی ایل این جی پر انحصار بڑھا دیا ہے اور اب بجلی کے کارخانوں کو چلانے کے لیے مائع گیس کا حصہ 25 فیصد ہے۔

مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان قطر سے 15 سالہ معاہدے کے تحت اور اٹلی اور قطر کے نجی وینڈرز سے سپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے ایل این جی درآمد کرتا ہے۔

پاکستان گذشتہ تین سالوں کے دوران 87 فیصد ایل این جی طویل المیعاد معاہدے کے تحت قطر سے اور بقیہ 13 فیصد سپاٹ پرچیزنگ سے حاصل کی۔

میاں محمد سالک کے مطابق: ’اگرچہ پاکستان نے بجلی کی پیداوار کے لیے ایل این جی پر انحصار بڑھا دیا ہے لیکن اسے بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کا سامنا ہے کیونکہ مائع گیس کی خریداری ناقابل اعتبار اور مہنگی ہے۔ سپاٹ قیمتوں نے ایل این جی کی خریداری کی حکمت عملی کو متاثر کیا ہے جو کہ سپلائی کا 40 فیصد تک رہ گیا ہے۔‘

انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی درآمدی ایل این جی کی طرف منتقلی ملک کی توانائی کی سلامتی اور مالیاتی استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

رپورٹ میں كہا گیا ہے كہ پاکستان اس وقت ایل این جی کی درآمدات تقریباً 2.6 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے جو 2029-30 میں بڑھ کر 32 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہیں اور اس کی وجہ عالمی منڈیوں سے حاصل کی جانے والی مائع گیس مقامی طور پر تیار کی جانے والی گیس سے پانچ سے دس گنا زیادہ مہنگی ہو گئی ہے۔

توانائی بحران کی دوسری وجوہات

میاں محمد سالک کا کہنا تھا کہ ایل این جی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں تاہم پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور لگن کی کمی کے باعث بہتری نہیں لائی جا سکی ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لائن لاسز اور بجلی کے ترسیل کے نظام میں بہتری نہ لانا اس سلسلے میں بہترین مثالوں کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔

’ہم تو ابھی تک بجلی كی چوری ختم نہیں كر پائے ہیں، ایسے میں توانائی کے سیکٹر میں کوئی معجزہ کیسے ہو سکتا ہے۔‘

حل كیا ہے؟

میاں محمد سالک کے مطابق ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث ایندھن سے متعلق قرض کی ادائیگی میں پاکستان کی نااہلی نہ صرف توانائی کے شعبے میں ایندھن کی قلت کا باعث بنی، بلکہ اس نے بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بڑھتے ہوئے بلوں کو بھی جنم دیا۔

انہوں نے اس صورت حال کا حل پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ایل این جی کی درآمدات کو تیزی سے بڑھانے کے بجائے پاکستان کی زیادہ توجہ موجودہ ایل این جی سپلائی کی ریگولیٹری ترغیبات کو تبدیل کرکے، ٹیرف کے ڈھانچے کو معقول بنانے اور توانائی کی بچت کے پروگراموں کو لاگو کرنے پر مرکوز رکھنا چاہیے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ موجودہ ایل این جی ٹرمینلز کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے ساتھ ساتھ مائع گیس کی خریداری اور ٹینڈرز کے لیے مزید مربوط حکمت عملی، بنیادی ڈھانچے میں بڑے اضافے کے بغیر بھی توانائی کی حفاظت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔

’توانائی کی کارکردگی کے سازوسامان اور زیادہ لاگت کے عکاس ٹیرف ڈھانچے کا فروغ درآمدی ضروریات کو کم کرنے کے لیے گیس کے زیادہ موثر استعمال کی ترغیب دے سکتا ہے۔‘

انہوں نے كہا كہ توانائی کی پیداوار میں قابل تجدید (Renewable) ذرائع کا زیادہ حصہ شامل موجودہ صورت حال سے بچا جا سکتا ہے۔

ایل این جی کی خریداری کے طریقے

بین الاقوامی منڈی میں سے مائع قدرتی گیس تین مختلف طریقوں سے خریدی جا سکتی ہے۔

1۔ سپاٹ پرچیزنگ: ایل این جی بنانے والی کئی بین الاقوامی کمپنیاں مائع گیس گو کارگوز میں بھر کر فروخت کے لیے بندرگاہوں پر کھڑا کر دیتی ہیں اور خریدار انہیں کسی بھی وقت خرید سکتے ہیں اور ڈیلیوری کئی ماہ بعد بھی کروائی جا سکتی ہے۔

پاکستان اس سال موسم گرما میں سپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے سستی ایل این جی خرید لیتا اور اس کی ترسیل دسمبر میں ہوتی۔ اس طریقے کے تحت خریداری کے وقت قیمت کے زمرے میں صرف اتنا طے ہوتا ہے کہ خریدار پٹرول کی قیمت کا کتنا فیصد بیچنے والی کمپنی کو ادا کرے گا جبکہ پٹرول کی قیمت کا تعین ترسیل کے وقت گذشتہ تین مہینوں کے دوران پٹرول کے نرخوں کی اوسط نکال کر تعین کیا جاتا ہے۔

پاکستان نے اس سال اگست میں سپاٹ پرچیزنگ کے ذریعے جو ایل این جی خریدی وہ پٹرول کی قیمت کے 5.7395 فیصد کے حساب سے خریدی گئی تھی۔ اگر اسی وقت دسمبر 2020 کے لیے بھی مائع گیس خرید لی جاتی تو آج صرف پٹرول کی قیمت میں اضافہ ایل این جی کی قیمت کو متاثر کرتا جبکہ گیس کی قیمت پٹرول کی قیمت کے کتنا فیصد ہوگی میں کوئی فرق نہ پڑتا۔

سپاٹ پرچیزنگ میں پٹرول اور ایل این جی کا نرخ پٹرول کی قیمت کا کتنا فیصد ہو گا دونوں تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔

2۔ طویل المدت معاہدہ: اس طریقے کے تحت خریدار ملک ایل این جی بنانے والے ملک یا کمپنی سے طویل المدت معاہدہ کرتا ہے جس کے تحت لمبے عرصے کے لیے ایل این جی کا نرخ پٹرول کی قیمت کا کتنے فیصد ہو گا مستقل رہتا ہے۔ پاکستان نے قطر سے 15 سالہ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت قطر اس مدت کے دوران پٹرول کی قیمت کے 13.37 فیصد کے حساب سے ہی ایل این فراہم کرے گا تاہم 10 سال بعد قیمت پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔

3۔ قلیل المدتی معاہدہ:  طویل مدتی معاہدے کے برعکس قلیل مدتی معاہدے میں ایل این کی قیمت پر نظرثانی ممکن نہیں ہوتی۔ پاکستان اور قطر کے درمیان ایل این جی کی خریداری کا پانچ سالہ قلیل مدتی معاہدہ بھی موجود ہے۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے یہ وقت ماہرین کے مطابق ایک کڑا وقت ہے جس میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات مستقبل میں معاشی صورت حال کا تعین کرسکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان