لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کی اپیلیں منظور کر لی گئی ہیں جن میں وزیر اعلیٰ کا انتخاب اور حلف کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالتی فیصلے کے بعد صورت حال دلچسپ اس وقت ہوئی جب پہلے پی ٹی آئی وکلا اور رہنماؤں نے فیصلے کو خوش آئند قراردیا جبکہ ن لیگ بھی حیران دکھائی دی لیکن جیسے ہی تحریری فیصلہ سامنے آیا تو فریقین کا ردعمل یکسر بدل گیا۔
پی ٹی آئی نے تحفظات ظاہر کیے جبکہ ن لیگ نے فیصلہ خوش آئند قرار دیا کیونکہ عدالتی فیصلے نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو عہدے پر برقرار رکھا اور انتخاب دوبارہ کرانے کا حکم دیا تو اپنی پوزیشن بہتر ہونے پر اظہار اطمینان کیا جبکہ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔
دوسری جانب عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ نے کل بروز ہفتہ چار بجے اسمبلی اجلاس طلب کر کے انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے۔
انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور اپوزیشن اتحاد نے فوری پارلیمانی جائزہ اجلاس طلب کیے جن میں ن لیگ نے دعوی کیا کہ ان کے 177 اراکین پورے ہیں مگر چوہدری پرویز الٰہی کے مطابق ان کے اراکین کی تعداد مزید کم ہوچکی ہے’ہاتھ باندھ کر زباں بندی کر کے کہتے ہیں الیکشن جیت کر دکھائیں۔‘
اسمبلی انتخاب میں فریقین کی ہنگامی تیاری:
عدالتی فیصلے کے بعد حکمران اتحاد اور اپوزیشن اتحاد نے تیاریاں شروع کردیں اور پارلیمانی اجلاس میں حکومت نے اپنے اراکین کی دستیابی کا جائزہ لیا۔
عدالتی حکم پر کابینہ تحلیل ہونے کے بعد سابق صوبائی وزیر رانا مشہود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’ہمارے 177اراکین پورے ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 168اراکین ہیں۔ اس بار عدالتی فیصلے سے ایک اور بات واضح ہوگئی کہ کوئی پارٹی رکن کسی اور کو ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے گا۔ منحرف اراکین کی تعداد 25 ہے، ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، ہمارے تین ناراض اراکین کے خلاف ہم نے کارروائی نہیں کی اور ان کے تحفظات بھی دور کردیے ہیں وہ ہمیں ووٹ دیں گے۔ اس کے علاوہ پی پی پی ، آزاد اراکین اور راہ حق پارٹی بھی ہمارے ساتھ ہے اس لیے ہماری کامیابی یقینی ہے اور الیکشن بھی ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی نگرانی میں بطور پریزائیڈنگ افیسر کرانے کا حکم دیا گیاہے۔‘
انہوں نے کہاکہ ’پی ٹی آئی اراکین کی تعداد پہلے سے بھی کم ہے اس لیے وہ اس بار بھی راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔‘
رانا مشہود کے بقول ہم نے پہلے بھی آئینی طریقے سے عدالتی احکامات پر انتخاب میں حصہ لیا اور 16اپریل کو کامیابی حاصل کر کے سپیکر قومی اسمبلی سے حلف لیاتھا۔
ان کے بقول بجٹ بھی پاس ہوچکا ہے قانونی طور پر اسے تحفظ حاصل ہے اب بھی یہ شوق سے مقابلہ کریں ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے عدالتوں کا پہلے بھی احترام کیا اب بھی فیصلہ تسلیم کیاہے۔
دوسری جانب چوہدری پرویز الہی نے کہاکہ ’یہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے پانچ مخصوص نشستوں پر اراکین کا نوٹیفکیشن نہیں کیا اور 17جولائی کو20نشستوں پرضمنی انتخاب ہے جبکہ ہمارے چھ اراکین حج کی ادائیگی کے لیے ملک سے باہر گئے ہیں ایوان ہی مکمل نہیں ہے۔‘
پرویز الہی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جس ڈپٹی سپیکر نے ن لیگ کے اجلاسوں میں شرکت کی، 16اپریل کو پولیس کے ذریعے ایوان میں اراکین پر تشدد کرایا، دوبارہ اسی کو سپیکر کی کرسی پر بیٹھا دیاگیاہے۔‘
انہوں نے کہاکہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں مگر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جارہاہے امید ہے ہماری درخواست منظور کی جائے گی۔ پرویز الہی نے کہا ’ہم انتخابات سے نہیں بھاگتے لیکن منصفانہ اور شفاف طریقے سے انتخابی عمل ہمارا حق ہے جو لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
عدالتی فیصلے سے پنجاب کا سیاسی بحران حل ہوجائےگا؟
اس سوال کے جواب میں لاہور کے سینئر صحافی جاوید فاروقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد سے پنجاب کے سیاسی اور آئینی دونوں بحران ختم ہوجائیں گے۔
وزیر اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کے سلسلے میں ڈپٹی سپیکر پہلے مرحلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 16اپریل کو ہونے والے انتخاب کے دوران ووٹنگ کی گنتی سے 25منحرف اراکین نکال کر مطلوبہ تعداد حاصل کرنے والے کو وزیر اعلیٰ پنجاب قرار دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ حمزہ شہباز 202ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے، اگر 25نکالیں تو باقی 177بچتے ہیں جو آئینی طور پر 186اراکین کی حمایت نہیں بنتی لہذا قانون اور عدالتی فیصلے کے مطابق دوبارہ انتخاب کی صورت میں ایوان میں موجود زیادہ اراکین کی حمایت حاصل کرنے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔
جاوید فاروقی نے کہاکہ اس طریقہ کار میں بھی حمزہ شہباز ہی کامیاب ہوں گے کیونکہ 25اراکین کے بغیر بھی انہیں 177ممبران کی حمایت حاصل ہے جبکہ پرویز الہی کے پاس اب 162اراکین رہ گئے ہیں کیونکہ ان کے 168میں سے پانچ اراکین حج پر گئے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے خیال میں حکومت نے گورنر کی جانب سے ایوان اقبال میں بلائے گئے بجٹ اجلاس میں بجٹ پاس کرالیا، اب انتخاب کے سلسلے میں پنجاب اسمبلی میں ہی دوبارہ اجلاس ہوگا، یوں ایوان بھی ایک ہوجائے گا۔
انہوں نے کہاکہ عدالتی فیصلے کے مطابق حمزہ شہباز ایک تو عہدے پر برقرار رہیں گے، دوسرا کل کے انتخاب سے اب اپوزیشن ان پر غیر آئینی وزیر اعلیٰ ہونے کا الزام نہیں لگا سکے گی اور گورنر دوبارہ حلف لیں گے تو حلف بھی آئینی ہوجائے گا۔
ضمنی انتخابات پر بھی کل کے نتائج کا اثر پڑے گا کیونکہ جب وزیر اعلیٰ دوبارہ عدالتی احکامات پر منتخب ہوں گے تو عوامی طور پر بھی تاثر بہتر ہوگا اور اختیارات بھی زیادہ موثر انداز میں استعمال کر سکیں گے۔
لیکن ان انتخابات میں اگر پی ٹی آئی نے زیادہ نشستیں جیت لیں تو کوئی اپ سیٹ ہوسکتا ہے جس کا زیادہ امکان نہیں۔ کیونکہ پی ٹی آئی امیدوار بیشتر حلقوں میں بہت زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتے البتہ چند نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں تو امید یہی ہے کہ ضمنی انتخاب میں ن لیگ زیادہ نشستین حاصل کر کے 186کی سادہ اکثریت حاصل کر لے گی۔
’اپوزیشن کو حکومت پر سبقت حاصل کرنے کے لیےکم از کم 13یا اس سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا پڑیں گی اور پھر پانچ مخصوص نشستیں بھی انہیں ملیں تو اس طرح ان کے پاس 186اراکین ہوں گے اور ن لیگ سات یا اس سے کم نشستیں جیتی تو ان کے 184اراکین ہوں گے، تب اپوزیشن حمزہ شہباز کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک چلانے کی پوزیشن میں آسکتی ہے، جس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ پنجاب میں حکمران اتحاد خاص طور پر ن لیگ کا پلڑا بھاری ہے مگر یہ خارج از امکان نہیں کہ ضمنی انتخاب کے نتائج کا پنجاب کے ایوان میں حکومت کے استحکام یا عدم استحکام کا موجب بن سکتے ہیں۔‘