چوہدری شجاعت سے ملاقات: شہباز شریف ق سے کیا چاہتے ہیں؟

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے درمیان اتوار کو ایک ملاقات ہوئی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

شہباز شریف اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان اتوار کو لاہور میں ملاقات ہوئی (سکرین گریب)

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے درمیان اتوار کو ایک ملاقات ہوئی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا مقصد موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔

شہباز شریف اور چوہدری شجاعت حسین کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں صوبائی وزیر ملک احمد خان کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین کے دونوں بیٹے وفاقی وزیر چوہدری سالک اور چوہدری شافع بھی موجود تھے۔

ملک کی حالیہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں یہ ایک غیرمعمولی ملاقات ہے، اور تجزیہ کاروں کے خیال میں شہباز شریف اس وقت ’مشکل‘ میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کرنے گئے۔

خیال رہے کہ جمعے کو پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تھی جس کے بعد عدالت نے 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا۔

دوسری جانب 17 جولائی کو پنجاب میں ضمنی انتخاب بھی ہونے جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ ملاقات انتہائی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔

طویل عرصے سے ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کی خبر رکھنے والے سینیئر صحافی خواجہ نصیر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شہباز شریف اس وقت مشکل میں ہیں، کیونکہ وفاق کی سطح پر دیکھیں تو ان کی حکومت اس وقت صرف دو ووٹوں پر کھڑی ہے اور پنجاب میں چوہدری پرویز الہی کی وجہ سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔‘

’ایسے میں کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح سے پرویز الہی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے پنجاب کے معاملات کو دوستانہ طور پر حل کیا جائے۔‘

خواجہ نصیر کہتے ہیں کہ مرکز کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو رہی ہیں۔ ’اس وقت ایک طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہیں تو دوسری طرف مہنگائی 30 فیصد پر کھڑی ہے۔ ان معاملات کو اس طریقے سے حل کیا جائے کہ اتحادی حکومت ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو۔‘

’اس ملاقات میں فوکس اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ تین جولائی گزر گئی، پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے رہ گئے 13 دن۔ دوسری طرف ایک مرتبہ پھر سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ایک ویوو (Wave) بنانا شروع کر دی ہے۔‘

خواجہ نصیر کے مطابق  ’عمران خان کی جو ویوو ہے اس کو دیکھتے ہوئے میاں شہباز شریف کا خیال ہے کی چوہدری فیملی جن کے پاس پنجاب اسمبلی میں دس فیصلہ کن ووٹ ہیں، یہ ووٹ اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ کوئی بھی ایسی چیز جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اپ سیٹ کرتی ہے اس سے پہلے پہلے ایک مرتبہ پھر چیزوں کو منظم کیا جائے۔‘ 

اسی بارے میں سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے اتحاد کے معاملات ہیں اور چوہدری شجاعت کا ایک بیٹا چوہدری سالک وفاقی وزیر ہے، دوسرا میرے خیال میں پنجاب میں معاون خصوصی بننے کا امیدوار ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں تو یہ ساتھ ہیں لیکن پنجاب میں ساتھ نہیں۔ اس لیے ظاہر ہے مسلم لیگ ن کوشش کرے گی کہ چوہدری برادران پنجاب میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔

’میرا خیال ہے کہ یہ ملاقات بس آپسی تعلق کو مضبوط بنانے، اپنے معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے ہوئی۔ کیونکہ پہلے ان کے معاملات اتنے اچھے نہیں تھے لیکن اب، ملتے رہیں گے تو معاملات اچھے رہیں گے، ان کا اتحاد اچھا چلے گا اور مسلم لیگ ن کو مسلم لیگ ق کا تعاون ملے گا۔‘

کیا یہ ملاقات چوہدری پرویز الہی پر اثر انداز ہونے کے لیے ہوئی؟

سینیئر صحافی و تجزیہ کار محمل سرفراز کے مطابق ویسے تو میاں شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ ق کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں جن میں چوہدری شجاعت بھی شامل ہیں۔ یہ ملاقتیں اتحادی حکومت کو تعاون فراہم کرنے کے سلسلے میں ہوتی ہیں۔

’باقی جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے چوہدری پرویز الہی پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تو میرا نہیں خیال کہ چوہدری شجاعت اس طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ پرویز الہی پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے دستبردار ہو جائیں۔‘

محمل سرفراز کہتی ہیں کہ ’ایسا کچھ ہوتا تو پھر لاہور ہائی کورٹ کا جو فیصلہ تھا کہ یکم جولائی کو رن آف کروا دیں تو تب وہ اس چیز کو مان لیتے اور اپیل میں نہ جاتے۔‘

ان کے خیال میں اگر پاکستان تحریک انصاف اپیل میں گئی ہے تو وہ چوہدری پرویز الہی کے مشورے کے ساتھ ہی گئی ہے۔

’دیکھا جائے تو پہلے پی ٹی آئی نے بات کی کہ حمزہ شہباز ضمنی انتخابات تک وزیراعلیٰ کے عہدے پر نہ رہیں لیکن جب چوہدری پرویز الہی اور محمود الرشید نے کہا کہ نہیں حمزہ کو عہدے پر رہنے دیں تب تک جب تک وہ بطور وزیر اعلیٰ انتظامی امور پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ بعد میں پی ٹی آئی بھی مان گئی کہ وہ 17 جولائی تک وزیر اعلیٰ رہیں۔‘

محمل سرفراز کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ کا انتخاب لڑنا چاہتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ 20 سیٹوں پر جو ضمنی انتخاب ہونا ہے اس کا نتیجہ بھی آجائے اور ایک پورے ایوان کے ساتھ انتخاب میں جایا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک یہ بات ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی سے متنفر ہیں تو پنجاب کے اندر تو ہم نے اب تک یہ ہی دیکھا ہے کہ پرویز الٰہی بھی پی ٹی آئی کے بالکل ساتھ ہیں اور مونس الٰہی نے بھی پی ٹی آئی کے حق میں بینات دیے ہیں۔

’بظاہر تو یہ ہی نظر آرہا ہے کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ میں کوئی دراڑ نہیں ہے۔ اب تو 22 جولائی کا انتخاب ہے کیونکہ پی ٹی آئی یہ سوچ رہی ہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج بہتر بھی آسکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست