سرکاری عہدیداران کو توشہ خانہ خریداری سے روکنے کا بل تیار

سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروائے گئے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ پبلک آفس ہولڈر اور ان کے خاندان کے اراکین کو براہ راست یا نیلامی کے ذریعے توشہ خانہ کے تحائف لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

19 دسمبر2019 کو ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو تحفے میں دی گئی پروٹون ایکس 70 کار (ملائیشین ہائی کمیشن اسلام آباد ،ٹوئٹر اکاؤنٹ)

سینیٹ سیکرٹریٹ میں سرکاری افسران کو توشہ خانہ تحائف کی خریداری سے روکنے سے متعلق بل جمع کروا دیا گیا ہے۔

توشہ خانہ سے تحائف لے کر بیچنے سے متعلق بحث زدِ عام رہی ہے۔ اس حوالے سے ماضی میں اپوزیشن اور حکومتی رہنما ایک دوسرے پر الزامات بھی لگاتے رہے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں توشہ خانہ سے گھڑیاں خرید کر بیچنے کی خبر عمران خان کے بارے میں بھی سامنے آئی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے یہ بل جمع کرایا جس کے تحت صدر مملکت اور وزیراعظم سمیت تمام سرکاری حکام اور ان کے خاندان کے لیے توشہ خانہ سے تحائف کی خریداری ممنوع قرار دی جاسکتی ہے۔

بل میں کیا ہے؟

منگل کو سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروائے گئے بل، توشہ خانہ ایکٹ 2022، میں تجویز کیا گیا ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کی ذمہ دار کابینہ ڈویژن ہوگی جبکہ تحائف کے شفاف طریقہ سے جمع ہونے اور محفوظ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

کمیٹی کابینہ کے پاس سالانہ رپورٹ جمع کروائے گی جس میں تحائف کے ملنے اور بیچنے کے ساتھ ساتھ قومی خزانے میں جمع کروائی گئی رقم کی تفصیلات شامل ہوں گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ پبلک آفس ہولڈر اور ان کے خاندان کے اراکین کو براہ راست یا پبلک آکشن کے ذریعے توشہ خانہ کے تحائف لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔  

بل میں تجویز دی گئی ہے کہ تمام پبلک آفس ہولڈرز انہیں ملنے والے تحائف فوری طور پر توشہ خانہ میں جمع کروائیں گے، اگر معلوم ہوا کہ کسی نے تحائف سے متعلق رسید جمع نہیں کروائی تو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ 

توشہ خانہ میں پڑے نوادرات بیچے نہیں جا سکتے

بل کے مطابق تحائف کی قیمت کا تعین نجی اور سرکاری سطح پر فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے کیا جائے گا۔ اگر تحائف کی قیمت میں 25 فیصد یا اس سے زائد کا فرق ہوا تو کابینہ سیکریٹری قیمت کا تعین کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بل میں کہا گیا ہے کہ توشہ خانہ میں ملنے والے تحفے جو بیچے جانے کی کیٹگری میں آتے ہوں انہیں پبلک آکشن کے ذریعے بیچا جائے گا جبکہ تحفہ وصول کرنے والا شخص توشہ خانہ میں موجود نوادرات اور گاڑیاں بیچ نہیں سکے گا۔

واضح رہے کہ بل منظور ہونے کی صورت میں سرکاری عہدیدار یا ان کے خاندان کے افراد توشہ خانہ کے تحائف نہیں خرید سکیں گے۔

سینیٹر بہرہ مند تنگی کا موقف ہے کہ ریاست کے طور پر پاکستان کو ملنے والے تحائف بیچنا قابلِ افسوس بات ہے اور بیوروکریٹ توشہ خانہ میں پڑے مہنگے تحائف کی کم قیمت لگا کر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو وہ تحائف دیتے ہیں جب کہ ان تحائف کے بیچنےسے ملنے والی رقم کی بھی تفصیلات سامنے نہیں آتیں۔

یہ بل ایک نجی بل ہے جو سینیٹ کے ’پرائیویٹ ممبر ڈے‘ کے موقع پر ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔

توشہ خانہ کیا ہے؟

1974 میں قائم کیا گیا توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے زیر انتظام ایک محکمہ ہے جو جذبہ خیر سگالی کے طور پر دیگر حکومتوں کے سربراہان اور غیر ملکی معززین کی جانب سے حکمرانوں، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور حکام کو دیے گئے قیمتی تحائف کو جمع کرتا ہے۔ 

توشہ خانہ میں بلٹ پروف گاڑیوں، بیش قیمت پینٹنگز، گھڑیوں، زیورات، قالین اور گولڈ پلیٹڈ یادگاروں سمیت دیگر قیمتی سامان موجود ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان