دوست کو بھی اپنی زندگی جینے دیں

ہم لوگوں کی ساری زندگی اپنے گرد گھومتی ہے۔ اگر کوئی اچھا دوست خدا نے دیا ہے تو کوشش کریں اس کے لیے وہ سب کچھ کریں جو آپ سمجھتے ہیں کہ اسے آپ کے لیے کرنا چاہیے۔ آپ بھی تو کسی کے اچھے دوست ہو سکتے ہیں، کہ نہیں؟

وہ کہاوت بھول جائیں کہ اچھے دوست کی پہچان صرف سفر میں ہوتی ہے (فائل تصویر: پکسابے)

دنیا بھر میں جتنا بلیک میل ایک اچھا دوست ہو سکتا ہے شاید ہی کوئی دوسرا رشتہ اس معاملے میں اس کے برابر کھڑا ہو سکتا ہو۔

ہم لوگ اچھے دوست کو مدر، فادر، سسٹر، بھائی وغیرہ ٹائپ کی ساری ذمے داریاں نہ صرف سونپ دینا ٹھیک سمجھتے ہیں بلکہ اگر ان میں سے کسی پر وہ پورا نہ اترے تو باقاعدہ درخت ڈھونڈ کر آنسو بھی بہاتے ہیں۔

کیا قصور ہے یار اس انسان کا جو آپ کے ساتھ ہر دکھ سکھ میں کھڑا ہے، مخلص ترین ہے اور مشورہ بھی جینوئن دیتا ہے۔ اسے امتحان میں ڈال کے ہم اس کی دوستی چیک کر رہے ہوتے ہیں یا خود اس غریب کو ٹھوک بجا رہے ہوتے ہیں؟

دوست کو اچھے طریقے سے چلانا ہے اور ایزی رکھنا ہے تو سب سے پہلے اس گانے کو دفنا دیں ’دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا۔‘ یہ گانا کسی بھی مشکل ترین دوستانہ امتحان میں فیل ہونے کے بعد ایک مخلص دوست کو شدید برا لگ سکتا ہے۔ اسے عام زبان میں فالتو کے سوشل میڈیائی دکھڑے رونا بھی کہا جا سکتا ہے۔

وہ کہاوت بھول جائیں کہ اچھے دوست کی پہچان صرف سفر میں ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے سفر میں اچھا دوست بے چارہ خود ٹریول سکنیس کا شکار ہو یا کسی بھی دوسری پریشانی میں ہونے کی وجہ سے آپ کی خاطر خواہ خدمت نہ کر سکتا ہو۔

قرض مت مانگیں، کوئی کاروبار، لین دین، امید، توقع اور کوئی بھی حساب کتاب دوست سے مت رکھیں۔

پیسوں کی ضرورت ہے اور دوست افورڈ کر سکتا ہے تو ادھار کی بجائے نقد مانگ لیں۔ کم ہوں لیکن وہ فاتحہ پڑھ کے دے گا تو دوستی بچی رہے گی۔

کاروبار دوستی کا سنہرا دشمن ہے۔ چونا لگے یا نہ لگے آپ خواہ مخواہ ہر اگلے نقصان کے بعد ایک اچھے دوست کا دس فیصد ’اچھا پن‘ کم ہوتا محسوس کریں گے اور دو تین برس میں وہ دوست، کاروباری دشمن میں تبدیل ہوتا نظر آئے گا۔

امید، توقع یا خواہ مخواہ کی خوش گمانی اس لیے نہ پالیں کہ دوست غریب اگر ان پہ بوقت ضرورت کسی بھی ذاتی وجہ سے پورا نہ اترا تو آپ خود کو ایک مخلص انسان سے محروم کر سکتے ہیں۔

دوست کے سامنے وہ راز مت کھولیں جسے آپ چاہتے ہوں کہ بعد میں صرف آپ دونوں کے درمیان رکھا جائے۔ یہ ٹیکنیکلی ممکن نہیں ہے۔ دوست اندھا کنواں نہیں ہوتا، جیتا جاگتا انسان ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے وہ گوسپ کا آپ سے زیادہ شوقین ہو۔

ہم لوگوں کی ساری زندگی اپنے گرد گھومتی ہے۔ اگر کوئی اچھا دوست خدا نے دیا ہے تو کوشش کریں اس کے لیے وہ سب کچھ کریں جو آپ سمجھتے ہیں کہ اسے آپ کے لیے کرنا چاہیے۔ آپ بھی تو کسی کے اچھے دوست ہو سکتے ہیں، کہ نہیں؟

دوست کو بار بار دوستی کا طعنہ نہ دیں۔ اگر وہ قابل اعتبار نہیں تھا تو سلیکشن آپ نے غلط کی، اسے فانی انسان ہونے کا مارجن دیں۔

دوستی اور پی آر میں فرق کو سمجھیں۔

کسی بھی کامیاب آدمی کے بارے میں ایک بات بہت زیادہ سننے میں آتی ہے کہ وہ ہر کام دوستوں سے کروا لیتا ہے، اس کے ہر محکمے میں ’دوست‘ موجود ہیں، اس کا حلقہ احباب بڑا وسیع ہے اور وغیرہ وغیرہ۔

اس چکر سے جتنا ہو سکے بچنے کی کوشش کریں۔ پبلک ریلیشننگ اور دوستی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

’صاحب کے ابا مرے تو جنازے میں شہر آیا، صاحب مرے تو کوئی نہیں آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ کہاوت خود اپنے معنی واضح کرتی ہے۔ ایک جگہ آپ صرف ’کام کے دوست‘ ہوتے ہیں دوسری جگہ دوستی بغیر کسی مقصد کے ہوتی ہے اور مل کر پورے خلوص سے ایک دوسرے کا وقت ضائع کرنا ہوتا ہے جسے عام طور پہ ہم ’انجوائے منٹ‘ کہتے ہیں، اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ تفریح کے اندر مقصد ڈھونڈنے والے جانتے ہی نہیں کہ انجوائے منٹ ہوتی کیا ہے!

دوست کو معاشرے میں پائے جانے والے اعلیٰ اخلاقی معیار کے حساب سے ہرگز مت پرکھیں۔ اچھا انسان اپنے نفعے نقصان میں اتنا پھنسا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دوستیاں نبھانے کا وقت کم ہوتا ہے۔ جو بندہ آپ کو عیب دار لگے، کسی کونے میں ہلکا ہو، کمزور لگے، عام طور پہ اس کے پاس دوستیاں نبھانے کی فرصت زیادہ ہوتی ہے، وہ ججمینٹل بھی کم ہوتا ہے۔

وقت بے وقت فون کرنا اچھے دوست کا امتحان لینے والی بات ہے۔ جس وقت اس نے فون اٹھانا چھوڑ دیا تو آپ اسے بے وفا وغیرہ کہہ سکتے ہیں، اس لیے کوشش کریں کہ فون یا ملاقات کا الگ سے کوئی وقت طے ہو، جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے ہیں آپ کے دوست بھی ساتھ میں بڑے ہوتے ہیں، ممکن ہے وہ آپ سے زیادہ مصروف ہوں۔

سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر دوست پالیں ہی کیوں؟ سب کچھ اکیلے بھگتنا ہے تو دوست کی ضرورت کیا ہے؟؟؟

سمپل، کسی بھی چیز کی اوور ڈوز مت دیں دوستوں کو۔ ہر انسان کی زندگی میں اپنے مسئلے چل رہے ہوتے ہیں، وہ خود ہلکان ہوتا ہے، جتنا آپ اسےلادیں گے اپنی روزانہ ٹینشنوں سے، اتنی ہی اسے عادت ہوتی جائے گی۔ اینڈ کیا ہو گا؟

دوست آپ کو سیریس لینا چھوڑ دے گا کہ یہ آل ٹائم کِل کِل ہے اور آپ کو شکایت ہو گی کہ وہ ڈھنگ سے بات نہیں سنتا۔

سو باتوں کی ایک بلکہ آخری بات یہ کہ دوست کتابیں پڑھ کے نہیں بنائے جا سکتے۔ دوست بنانے کا طریقہ کوئی نہیں ہوتا، یہ بس زندگی کا تحفہ ہوتے ہیں، کسی کو زیادہ، کسی کو تھوڑے ملتے ہیں اور پھر اس دوستی میں خلوص کا انجیکشن وقت کے ساتھ لگتا جاتا ہے۔

ایک بار اس انجیکشن کا احساس ہو جائے تو بندے کی قدر اور ہدایت نامے پہ عمل کرنا شروع کر دیں، سائیں سکھی رکھے گا دونوں کو!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ