کرکٹ، امیدیں اور کھیلوں میں سیاست

کیا کرکٹ کا سابق کامیاب کپتان اور ملک کا موجودہ وزیراعظم ٹیم کی کمزوریوں کو ختم کر کے اس کی کارکردگی پر چھائے غیر یقینی کے بادل ہٹا سکے گا؟

کرکٹ پاکستانیوں کے لیے محض ایک کھیل نہیں بلکہ قوم کا اس سے عشق اور جنون کا رشتہ ہے (اے ایف پی)

کرکٹ کا موسم پاکستانیوں کے لیے تمام ہوا اور ساتھ ہی ورلڈ کپ جیتنے کی تمام امیدیں بھی۔ اس بار ورلڈ کپ کے موقع پر توقعات اس لیے بھی زیادہ تھیں کہ آج پاکستان کا کپتان بھی وہ ہے جس کی سربراہی میں ہماری کرکٹ ٹیم نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔

اس لیے قوم کی امنگیں اور آرزوئیں بھی آسمان پر تھیں جب کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی تھے، یوں لگا کہ صرف نجم سیٹھی کی تبدیلی سے سب کچھ بدل جائے گا اور ورلڈ کپ ہماری جھولی میں آ گرے گا۔

ہر طرف آج کی کرکٹ ٹیم اور حالات کی 92 کے ورلڈ کپ سے مماثلت کے اتنے چرچے ہو رہے تھے کہ آئی سی سی کی ویب سائٹ اور سپورٹس چینلز پر بھی پاکستانی ٹیم کی مثال 1992 کی ٹیم سے دی جانے لگی اور قوم کے جذبات حقائق پر غالب آ گئے، لیکن انہونی نہ کبھی ہوئی اور نہ ہی اس بار ہو سکی۔

ورلڈ کپ میں ایک بار پھر پاکستان کا سامنا اپنے روایتی حریف بھارت سے ہوا جو قوم کے لیے سب سے اہم میچ تھا، لیکن پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ میں بھارت سے شکست کی روایت برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر قوم کو بری طرح مایوس کیا۔ بھارت کے سامنے پاکستان کی بولنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ ناکام ثابت ہوئیں اور ہمیں 89 رنز سے شکست ہوئی۔

پاکستان کا بھارت سے یہ میچ ایک ٹیسٹ کیس ہے، اگرچہ پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کی ٹاپ چار ٹیموں میں شامل ہو کر سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکی لیکن یہ وہ عجیب ٹیم ہے جس نے برطانیہ کو اس کی سرزمین پر شکست دی، آسٹریلیا کو مشکل میں ڈالا، مضبوط ترین نیوزی لینڈ کو شکست دی، جنوبی افریقہ کو ڈھیر کیا ، لیکن اس ٹیم کی غیر یقینی کا یہ عالم ہے کہ افغانستان سے نہ صرف پریکٹس میچ میں شکست کھائی بلکہ لیگ میچ میں بمشکل فتح حاصل ہوئی۔

پاکستانی ٹیم کے کھیلنے کا انداز بالکل شاہانہ دکھائی دیتا ہے جب جی میں آتا ہے جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیتے ہیں اور جب چاہے کمزور ٹیم سے بھی ہار کو قوم کو خون کے آنسو رلا دیتے ہیں۔

ٹیم کی یہ غیر یقنی صورتحال اور اس کے اسباب کچھ تو ہماری پیدائش سے بھی پہلے کے چلے آ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ہمارے بعد بھی یہ سلسلہ یونہی رہے گا اگر کرکٹ کے معاملات ماہرانہ انداز میں نہ چلائے گے تو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دیرینہ اور بڑے مسائل میں کمزور فیلڈنگ، اوپننگ بیٹسمین کے درمیان کیمسٹری کا فقدان، کھلاڑیوں کی فٹنس کے مسائل اور سب سے بڑھ کر نفسیاتی دباؤ میں کھیل سکنے کی صلاحیت کا نہ ہونا سرفہرست ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری ٹیم انہی خامیوں کے ہوتے ہوئے دنیا کی مضبوط ٹیموں سے بھی جیت جاتی ہے، لہذا قوم کو ہر بڑے ٹورنامنٹ میں دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب ہماری ٹیم بہترین ٹیم سے جیت جائے اور کمزور ٹیم سے ہار جائے۔

ٹیم کی کارکردگی پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا یہی اصل مسئلہ دکھائی دیتا ہے۔ کیا کرکٹ کا سابق کامیاب کپتان اور ملک کا موجودہ وزیراعظم ٹیم کی کمزوریوں کو ختم کر کے اس کی کارکردگی پر چھائے غیر یقینی کے بادل ہٹا سکے گا؟

کرکٹ پاکستانیوں کے لیے محض ایک کھیل نہیں بلکہ قوم کا اس سے عشق اور جنون کا رشتہ ہے، کرکٹ کی فتوحات نے ہمیں فخر کے کئی ناقابل فراموش لمحات دیے اور دنیا کے سامنے ہمارا سر فخر سے بلند ہوا۔

کرکٹ سے ہر پاکستانی کی جذباتی وابستگی ہے، اسی لیے دشمنوں نے ہم پر عالمی کرکٹ کے دروازے بند کرنے کے لیے سری لنکن ٹیم پر حملہ کروایا اور پاکستان کے کرکٹ سٹیڈیم ویران کر دیے، لیکن ہم آسانی سے ہار ماننے والے نہیں ہیں اور یہی بات ہماری کرکٹ ٹیم کے خمیر میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

بھارت نے جہاں ہر محاذ پر پاکستان کے ساتھ تنگ نظری اور تعصب کا مظاہرہ کیا وہیں کرکٹ کے کھیل میں بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

ورلڈ کپ سے قبل بھارت نے آئی سی سی کو خط لکھا کر مطالبہ کیا کہ دہشت گردی میں ملوث ممالک کو ورلڈ کپ میں شرکت سے روکا جائے لیکن آئی سی سی نے بھارت کے موقف کو مسترد کر دیا، یوں کھیل کو سیاست سے آلودہ کرنے کی ایک اور بھارتی کوشش ناکام ہو گئی۔

بھارت نے کرکٹ میں بھی اپنی جارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ عالمی کرکٹ کی 70 فیصد آمدنی بھارت کو جاتی ہے۔ 2017 میں بھارت کو کرکٹ کی سپانسرشپ سے ایک بلین ڈالرز کا فائدہ ہوا، اسی لیے بھارت دنیا میں کرکٹ کے فروغ کے خلاف ہے اور چاہتا ہے کہ کم سے کم ملک کرکٹ ورلڈ کپ میں شامل ہوں تا کہ اسے کرکٹ سے ہونے والی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے۔

یہی وجہ ہے کہ 2007 کے ورلڈ کپ میں 16 ٹیمیں شامل ہوئیں 2011 اور2015 میں 14 اور 2018 کے ورلڈ کپ میں صرف 10 ٹیمیں شامل ہوئی ہیں۔

 سال 2008 میں سڈنی ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے الزام عائد کیا تھا کہ ہربھجن سنگھ نے ان کے کھلاڑی اینڈریو سائمنڈز کو بندر کہا لیکن بھارت نے دھمکی دی کہ وہ ٹورنامنٹ نہیں کھیلے گا جس پر مالی نقصان کے خوف سے آسٹریلین بورڈ نے بھارتی کھلاڑی کے قصوروار ہونے کے باوجود معاملے کو دبا دیا۔

اس واقعے سے عالمی کرکٹ پر بھارتی اثر رسوخ اور آئی سی سی کی بے بسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  

سال 2014 میں کرکٹ میں بگ تھری کی اجارہ داری میں بھارت کا بہت بڑا ہاتھ تھا جس کا مقصد پاکستان کرکٹ کو مالی نقصان پہنچانا تھا۔

بگ تھری کے ذریعے بھارتی کرکٹ بورڈ کو سب سے زیادہ آمدنی ہوتی تھی۔ پاکستانی کرکٹ کو نقصان پہنچانے والے نظام کے سب سے بڑے حامی سابق چیئرمین نجم سیٹھی تھے، جن کی مدد سے بھارت بگ تھری کے ذریعے عالمی کرکٹ کا بڑا بن بیٹھا تھا۔

2017میں بگ تھری کی جگہ نئے مالیاتی نظام سے بھارت کی یہ اجارہ داری ختم ہوئی لیکن بھارت اپنی ذہنیت کی وجہ سے کرکٹ میں سیاست کرنے سے باز نہیں آیا۔

کرکٹ پر سیاست کے ذریعے حملہ دراصل پاکستانی قوم پر حملہ ہے کیونکہ اس کھیل سے ہماری خوشیاں وابستہ ہیں اور یہ ہمارے قومی اتحاد کی ایک علامت ہے۔

جس طرح ہم نے بغیر کسی مدد کے خود اپنے بل بوتے پر دہشت گردی کو ختم کیا، اسی طرح اپنی کرکٹ کو بھی ہمیں خود ہی واپس بلندیوں پر لے کر جانا ہو گا۔

قوم کو اس وقت وزیراعظم عمران خان سے ہر میدان میں امیدیں وابستہ ہیں۔ کرکٹ میں بھی توقع ہے کہ جیسے ان کی قیادت میں 1992کا ورلڈ کپ حاصل کیا تھا اسی طرح وہ کرکٹ ٹیم کا معیار بہتر کر کے اس کھیل میں ایک بار پھر پاکستان کو باوقار مقام دلائیں گے اور اگلا ورلڈ کپ جو اس حکومت کی مدت پوری ہونے کے قریب آئے گا اس میں فتح کا خواب پورا ہو گا ۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر