سری لنکا: شہریوں کو ’وزیراعظم کے جانے‘ کا انتظار

پارلیمان کے سپیکر نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا: ’صدر گوتابایا راجا پکشے نے قانونی طور پر استعفیٰ دے دیا ہے اور میں نے اسے منظور کر لیا ہے۔‘

سری لنکا میں مفرور صدر گوتایابا راجا پکشے کے استعفے کے بعد جمعرات کی شب مظاہرین سرکاری عمارتوں سے پیچھے ہٹ گئے اور سڑکوں پر جشن شروع ہوگیا جبکہ جمعے کو سپیکر نے صدر کے استعفے کی منظوری کا اعلان کیا۔ 

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پارلیمان کے سپیکر نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا: ’گوتابایا نے قانونی طور پر استعفیٰ دے دیا ہے اور میں نے اسے منظور کر لیا ہے۔‘

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اپنی تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا سامنا کرنے والے ملک کے مفرور صدر نے آخر کار اپنا استعفیٰ ای میل کیا، جس کا مظاہرین کئی مہینوں سے مطالبہ کر رہے تھے۔

صدر گوتابایا راجا پکشے دو روز قبل مظاہرین کی جانب سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کرنے کے بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے۔

ایک سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا کہ معاشی تباہی سے مشتعل مظاہرین کے دباؤ میں فرار ہونے والے صدر نے ایک دن بعد اپنا استعفیٰ ای میل کیا۔ اس سے قبل راجا پکشے نے بدھ کو مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن صدر راجا پکشے کے جانے کے بعد بھی ملک کی بہت سی پریشانیوں کا حل قریب نظر نہیں آتا، کیونکہ صدر نے اپنے وزیراعظم وکرما سنگھے کو قائم مقام صدر بنا کر مظاہرین کو مزید مشتعل کر دیا تھا۔

مظاہرین نے دونوں رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ ملکی قیادت سے دستبردار ہو کر اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے متحدہ حکومت کو اقتدار سونپ دیں۔

استعفے کی خبر پھیلتے ہی پرجوش ہجوم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سری لنکا کے پرچم لہرائے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر کے مستعفی ہونے کی خبر کے بعد دارالحکومت کولمبو میں مظاہرین شہر بھر میں کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدارتی سیکرٹریٹ کے باہر جمع ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہجوم نے پٹاخے پھوڑے، نعرے لگائے اور احتجاج کے مقام پر جوش و خروش سے رقص کیا۔

دمیتھا ابیرتھنے نامی ایک سرگرم کارکن نے روئٹرز کو بتایا: ’پورا ملک آج جشن منائے گا۔ یہ ایک بڑی فتح ہے۔‘

اپریل سے احتجاج میں شامل انجینیئر ویراگا پریرا نے اے پی کو بتایا: ’عالمی سطح پر اس طرح کی توثیق بڑی بات ہے۔ ہم نے ایک ایسی تحریک کی قیادت کی ہے جس میں کم سے کم طاقت اور تشدد کے ساتھ ایک صدر کے اقتدار کا خاتمہ ممکن ہوا۔ یہ فتح اور خوشی کا ملا جلا احساس ہے۔‘

اب مظاہرین کی نظریں وزیراعظم اور قائم مقام صدر رانیل وکرما سنگھے پر ہیں۔ 

احتجاج میں شامل طالبہ انجنا بنادراواتا نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم انتظار کر رہے ہیں کہ وزیراعظم رانیل رکرما سنگھے بھی گھر جائیں۔ اس لیے اگلا نعرہ رانیل گھر جاؤ ہوگا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔ ہم کل سے نئی امید سے لڑائی دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔‘

مظاہرین کا الزام ہے کہ صدر راجا پکشے اور ان کے طاقتور سیاسی خاندان نے برسوں سے سرکاری خزانے سے دولت لوٹی اور ان کی انتظامیہ کی غلط پالیسیوں نے ملکی معیشت کو برباد کر دیا۔

راجا پکشے خاندان نے بدعنوانی کے الزامات کی تردید کی ہے لیکن سابق صدر نے تسلیم کیا کہ ان کی کچھ پالیسیوں نے معاشی بگاڑ میں اہم کردار ادا کیا۔

روئٹرز کے مطابق صورت حال سے واقف اہلکار نے بتایا کہ صدر بدھ کو مالدیپ فرار ہو گئے اور پھر جمعرات کو سعودی عرب کی ایئر لائن کی پرواز سے سنگاپور روانہ ہوئے۔

مالدیپ کی حکومت نے جمعرات کی شب اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے ملک نے سری لنکا کی فضائیہ کے ایک طیارے کی لینڈنگ کے لیے سفارتی درخواست کی منظوری دی تھی۔

سعودی ایئرلائن کی فلائٹ میں سوار ایک مسافر نے روئٹرز کو بتایا کہ راجا پکشے سے سکیورٹی اہلکاروں کے ایک گروپ نے ملاقات کی اور انہیں کالی گاڑیوں کے قافلے میں ہوائی اڈے کے وی آئی پی راستے سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔

پرواز پر موجود ایئر لائن کے عملے نے روئٹرز کو بتایا کہ سیاہ لباس میں ملبوس صدر اپنی اہلیہ اور دو محافظوں کے ساتھ بزنس کلاس میں سنگاپور پہنچے اور دوران پرواز ان کا رویہ خاموش اور دوستانہ رہا۔

ادھر سنگاپور کی وزارت خارجہ نے کہا کہ راجا پکشے ایک نجی دورے پر ملک میں داخل ہوئے ہیں اور انہوں نے نہ تو پناہ مانگی تھی اور نہ ہی انہیں پناہ دی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا