سعودی عرب میں پروان چڑھتا جدید فن تعمیر

مقامی آرکیٹیکٹس اور انجینیئرز کا کہنا ہے کہ سعودی شہری ایسے گھر اور کاروباری جگہ پسند کرتے ہیں، جو پرکشش ہوں نہ کہ وہاں مجبوراً جانا پڑے۔

22 جولائی 2022 کو لی گئی اس تصویر میں سعودی دارالحکومت ریاض میں نو آراستہ ہاشم المدنی کا گھر دیکھا جاسکتا ہے (تصاویر: اے ایف پی)

سعودی شہری ہاشم المدنی کا گھر برسوں سے ان کے بلاک میں موجود میں دیگر گھروں کی طرح تھا: ایک خاکستری رنگ کا، بغیر کھڑکی والا فرنٹ جو بیرونی دنیا کے لیے تقریباً بالکل بند تھا۔

لیکن دو سال قبل کرونا وبا میں لاک ڈاؤن کے دوران دارالحکومت ریاض کے رہائشی حاتم نے گھر کو کشادہ اور کھلا بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے سڑک کی طرف رخ والا صحن بنایا، بیرونی دیواروں کو دوبارہ چونے سے رنگا اور داخلی راستے میں مدھم روشنی والی لائٹ لگائی۔

مقامی آرکیٹیکٹس اور انجینیئرز کا کہنا ہے کہ اس طرح کی خصوصیات پورے دارالحکومت ریاض میں تزئین و آرائش اور نئے تعمیر شدہ منصوبوں کی پہچان بن گئی ہیں کیونکہ سعودی شہری ایسے گھر اور کاروباری جگہ پسند کرتے ہیں، جو پرکشش ہوں نہ کہ وہاں مجبوراً جانا پڑے۔

سعودی حکام کے خوش آئند بیانیے کے نتیجے میں یہ ایک اہم بصری نشانی ہے۔

مدینے کے گھروں میں کام کرنے والی اے ایف گروپ ڈیزائن فرم کے مالک عبداللہ الجیسر کے مطابق: ’حالیہ برسوں میں تعمیرات میں کشادگی دیکھنے میں آئی ہے۔‘

’لوگ تبدیلی، سجاوٹ اور ڈیزائن کے مختلف نمونوں کو زیادہ اپنانے لگے ہیں۔‘

اپنے گھر کی بیرونی دیواروں اور داخلی راستے کے علاوہ ہاشم مدنی نے تھائی لینڈ سے درآمد کردہ بادام کے درختوں کے ساتھ صحن کو سجایا اور ایک سوئمنگ پول بھی بنایا جس کی وجہ سے یہ ان کی بیوی اور سات بچوں کے لیے ایک نیا پسندیدہ لاؤنج بن گیا ہے۔

بطور ہیومن ریسورس آفیسر کام کرنے والے 52 سالہ ہاشم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’اب اس جگہ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے طرز زندگی کو بہتر بنانے کی جانب ایک قدم اٹھایا ہے۔‘

ماضی کے برعکس طرز تعمیر

روایتی ڈیزائن، جیسا کہ ہاشم کا گھر پہلے نظر آتا تھا، ریاض میں اب بھی زیادہ ہیں۔ مرکزی نجد، جہاں مدینہ ہے، بہت سے گھروں میں صرف فن تعمیر کی مخصوص چھوٹی سی تکونی کھڑکیاں نظر آتی ہیں۔

کھڑکیوں کا سائز اس خواہش کی عکاسی کرتا ہے کہ دھوپ اندر نہ آئے، بالخصوص جن دنوں درجہ حرارت 40 سیلسیس (104 ڈگری فارن ہائیٹ) سے اوپر رہے۔

ریاض میں الواحدن انجینیئرنگ کے مالک سعودی آرکیٹکٹ علی الواحدان نے کہا کہ ان گھروں سے ’خاندان کو زیادہ پرائیویسی‘ بھی ملتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2018 میں سعودی قومی بلڈنگ کوڈ کمیٹی نے نئی عمارتوں کے لیے رہنما اصولوں کو اپ ڈیٹ کیا- مثال کے طور پر صحت عامہ کو فروغ دینے کے لیے بڑی کھڑکیوں کو لازمی قرار دیا گیا۔

الواحدن نے کہا کہ ماضی میں زیادہ تر گھروں میں مرد اور خواتین کے لیے مختلف داخلی راستوں کے ساتھ علیحدہ استقبالیے نظر آتے تھے، نئے فلور پلان میں سب کے لیے ایک جگہ مختص کی گئی ہے جس سے جگہ کا زیادہ موثر استعمال ہو سکے گا۔

مزید کھلی بالکونیاں اور چھتیں اب معیاری بن رہی ہیں جب کہ اس سے پہلے بیرونی بالکونیاں تقریباً مکمل طور پر بند ہوتی تھیں، چاروں طرف جالی دار دیواریں تھیں جن سے ہوا تو گزر سکتی تھی لیکن زیادہ روشنی نہیں جاتی تھی۔

تاہم سب کچھ تبدیل نہیں ہوا۔

اگرچہ 2018 میں خواتین کو گاڑی چلانے کا حق دیا گیا تھا لیکن خوشحال سعودیوں کے نئے پلانز میں اب بھی اکثر ڈرائیور کے لیے ایک کمرہ شامل ہوتا ہے، جو گھر کے باقی حصوں سے الگ ہوتا ہے۔ الواحدان کو یقین ہے کہ اس کے باوجود جدید ڈیزائن کا بڑھتا ہوا شوق ’چند سالوں کے اندر سعودی عرب میں فن تعمیر کی ثقافت کو بدل دے گا۔‘

کاروبار کے لیے کشادگی

یہ نئی ترجیحات صرف رہائشی مکانات تک محدود نہیں ہیں۔ تجارتی کمپلیکس اور دیگر عوامی جگہوں کی بھی نئی شکل ہوتی جا رہی ہے۔

سعودی ریستوران میں فیملیوں اور کنوارے مردوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ اور داخلی راستے الگ الگ ہوتے تھے لیکن حکام نے 2019 کے آخر میں اس اصول کو ختم کر دیا تھا۔

رئیل سٹیٹ ڈویلپمنٹ فرم کے کمرشل ڈیزائن کے سپروائزر محمد عبدالمنیم نے کہا کہ ان اصلاحات سے اس بات پر دوبارہ غور کرنے میں مدد ملے گی کہ شاپنگ سینٹرز کو کس طرح ترتیب دیا جانا چاہیے۔

فواروں اور درختوں کے ساتھ ایک جدید شاپنگ اور ڈائننگ کمپلیکس، ریاض فرنٹ اس کی زیادہ نمایاں مثالوں میں سے ایک ہے، جہاں ہر عمر کے مرد اور خواتین خریدار ایک ساتھ جاتے ہیں۔

عبدالمنیم نے کہا کہ اب ان کھلی جگہوں کی زیادہ مانگ ہے جہاں ہر کوئی پابندیوں کے بغیر بات چیت کر سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا