افغان، طالبان مذاکرات میں خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے پر اتفاق

افغان گروپ اور طالبان کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی حقوق کے علاوہ ثقافتی امور کو اسلامی اقدار کے اندر رہتے ہوئے یقینی بنایا جائے گا۔

(اے ایف پی)

دوحہ میں درجنوں بااثر افغانوں کے درمیان جاری دو روزہ مذاکرات کا اختتام امریکہ اور شدت پسندوں کے درمیان ازسرنو مذاکرات کی بنیاد رکھنے پر ہوا ہے۔

جرمنی اور قطر کی مشترکہ میزبانی میں طالبان اور افغان تنظیموں کے درمیان ہونے والے دو روزہ مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں ’امن کے لائحۂ عمل‘ کا تعین کرنے کا عہد کیا گیا ہے، جو امن عمل کی نگرانی شروع کرنے، اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے جانے والوں کی واپسی اور افغانستان میں علاقائی قوتوں کی عدم مداخلت کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

افغان تنظیموں اور طالبان کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق اسلامی اقدار کے اندر رہتے ہوئے خواتین کے سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی حقوق کے علاوہ ثقافتی امور کو یقینی بنایا جائے گا۔

اس حوالے سے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے مذاکرات میں شریک خاتون مندوب اور افغان ویمن نیٹ ورک کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر میری اکرامی نے کہا کہ ’یہ صرف معاہدہ نہیں ہے، یہ بات چیت شروع کرنے کی بنیاد ہے۔‘

میری اکرامی نے کہا کہ ’اچھی بات یہ ہے کہ اس پر دونوں فریق رضامند ہیں۔‘

ان دو روزہ مذاکرات میں بڑے سیاست دانوں، سرکاری حکام اور کم از کم چھ خواتین نے شرکت کی۔

مذاکرات کے روزہ دور کے اختتام پر طالبان امیر خان متقی نے 700 الفاظ پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ پشتو میں پڑھ کر سنایا جسے بعد میں افغان ہائی پیس کونسل کی نائب چیئر پرسن حبیبہ سرابی نے اس کا دری زبان میں ترجمہ کیا۔

یہ مذاکرات دوحہ کے ایک پرتعیش ہوٹل میں ہوئے جس میں 70 کے قریب مندوبین نے شرکت کی اور جس وقت یہ مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا تو پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

افغانوں کی آپسی ملاقات کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان چھ روز تک براہ راست مذاکرات ہوں گے جنھیں دو روزہ افغان کانفرنس کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان ان مذاکرات کا آغاز منگل کو دوحہ میں ہے ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان تازہ مذاکراتی دور ’طالبان کے ساتھ ہونے والے ہمارے مذاکرات میں سے سب سے زیادہ تعمیری رہا ہے۔‘

انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ایک مستحکم افغانستان چاہتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ افغان گروپ کی ملاقات ایک بڑی کامیابی ہے۔‘

طالبان کے ساتھ متوقع معاہدے کے دو اہم جز ہو سکتے ہیں۔ ایک امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا اور دوسرا شدت پسندوں کی جانب سے دیگر شدت پسند عناصر کو پناہ گاہیں نہ فراہم کرنے کا عزم۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا