کے ٹو مہم میں جان سنوری میری رضامندی سے گئے: ہلاک کوہ پیما کی اہلیہ

جان سنوری کی بیوہ لینا موٹ نے بتایا کہ ان کے شوہر کی لاش کیمپ تک لانے کے لیے چند روز قبل چار کوہ پیماؤں کی ٹیم کو کے ٹو پر بھیجا گیا تھا، لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔

(سکرین گریب: انڈپینڈنٹ اردو)

کوہ پیما جون سنوری کی اہلیہ، جو حالیہ دنوں میں اپنے شوہر کی لاش مناسب مقام پر منتقل کرنے کی مہم پر پاکستان آئیں، ان کا کہنا ہے کہ ان كے شوہر كو كے ٹو مہم شروع كرنے میں ان كی پوری پشت پناہی اور رضامندی حاصل تھی۔ 

فروری 2021 میں تین کوہ پیماؤں کی ٹیم، جس میں پاکستانی محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو سردیوں کے موسم میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کرنے کی مہم پر نکلے۔ 

سردیوں میں کے ٹو پر شدید برف باری، برفانی طوفان اور تیز ہوائیں چلتی ہیں جس کے باعث اکثر کوہ پیما اس پہاڑ کا رخ نہیں کرتے بلکہ اسے سر کرنے کے لیے گرمیوں کا ہی انتخاب کیا جاتا ہے۔ 

کے ٹو سر کرنے جانے والے تینوں کوہ پیماؤں کا کچھ روز تک زمینی کیمپوں سے رابطہ رہا تاہم بعد میں ان کی طرف سے کوئی خبر نہ ملی اور ان کی تلاش شروع کر دی گئی۔ 

تقریباً ایک ہفتہ گزرنے کے بعد انہیں ہلاک تصور کر لیا گیا جو اسی سال جولائی میں درست ثابت ہوا جب علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے اپنے والد اور دو دوسرے کوہ پیماؤں کی لاشیں ڈھونڈ نکالیں۔ 

ساجد نے اپنے والد علی سدپارہ اور ہوان پابلو کی لاشوں کو کے ٹو پر کوہ پیماؤں کے روٹ کے قریب لا کر دفن کر دیا۔ 

تاہم ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ ان کے لیے جان سنوری کی لاش کو کسی ایسے مقام تک لانا ممکن نہیں تھا جو پہاڑ سر کرنے والے کوہ پیماؤں کے راستے میں آتا ہو، اور اس لیے ان کی لاش کو وہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ 

بعد ازاں جان سنوری کی لاش کو کے ٹو کے خطرناک ترین مقام سے نیچے لانے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ 

جان سنوری کی بیوہ لینا موٹ، جو آج کل پاکستان میں موجود ہیں، نے بتایا کہ ان کے شوہر کی لاش کیمپ تک لانے کے واسطے چند روز قبل چار کوہ پیماؤں کی ٹیم کو کے ٹو پر بھیجا گیا تھا، لیکن انہیں کامیابی نہیں ہوئی۔ 

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ منگما جی کی سربراہی میں جانے والی ٹیم کو پہاڑی پر دو گھنٹے گزارنے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، کیونکہ پہاڑ پر نئی برفباری کے باعث برفانی تودے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ 

تاہم انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے جو جان سنوری کی لاش تک پہنچنے اور اسے مطلوبہ مقام پر پہنچا کر دفنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ 

لینا موٹ نے کہا کہ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے علی سدپارہ، جو جان سنوری کے گہرے دوست تھے، کے خاندان سے ملاقات کی، اور بہت سارے ایسے مقامات دیکھے جہاں ان کے شوہر جایا کرتے تھے۔ 

انہوں نے کہا کہ فروری 2021 میں رونما ہونے والے واقعات ان کے، علی سدپارہ اور ہوان پابلو کے خاندانوں کے لیے مشکل تھے، اسی لیے انہوں نے بذات خود پاکستان آ کر علی سدپارہ کے خاندان کا شکریہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

’جان سنوری اور پاکستان کے کوہ پیمائی کے ہیرو اور لیجنڈ مسٹر علی سدپارہ کے درمیان دوستی مخلص اور مضبوط تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کا سفر اس امید پر کیا کہ اگر جان کو کے ٹو کی چوٹی کی طرف جانے والے راستے سے اس کے دوست اور کوہ پیمائی کے ساتھی علی اور ان کے کوہ پیمائی ساتھی ہوان پابلو کے قریب ایک آرام گاہ پر لے جانے کا موقع ملتا۔ اس طرح کی کارروائی میں حصہ لینے والوں کی حفاظت ہمیشہ ہمارے لیے انتہائی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ 

منگما جی اور دیگر مہمات سے پہاڑوں کے حالات کے بارے میں نئی ​​معلومات ہمیں آگے بڑھنے کے اپنے اختیارات کا جائزہ لینے میں مدد کرے گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ابھی کے ٹو پر سے نئی معلومات موصول ہو رہی ہیں اور اس سال کی مہمات سے حاصل ہونے والی معلومات اور تجربات سے واضح ہوا کہ اس طرح کی مہمات میں بے پناہ حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔  

انہوں نے مزید کہا کہ مہمات سے آنے والی معلومات سے یہ بھی واضح ہوا کہ ان کے شوہر کی لاش اس وقت جس مقام پر ہے وہ شاید کے ٹو کا خطرناک ترین حصہ ہے اور لاش کو وہاں سے منتقل کرنے سے چوٹی پر پہنچنے والے 150 سے زیادہ کوہ پیماؤں کے لیے سنگین حفاظتی خطرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ 

’ہم بطور خاندان اس بات کو اجاگر کرنا چاہیں گے کہ جان سنوری كی لاش كو صرف اس طریقے سے منتقل کیا جانا چاہیے جو اس مہم میں شامل افراد اور پہاڑ پر دیگر کوہ پیماؤں کے لیے خطرے كا باعث نہ بنے۔‘ 

انہوں نے كہا: ’ مجھے یقین ہے اور میں دل سے جانتی ہوں كہ پانچ فروری 2021 كو میرے شوہر جان سنوری اور محمد علی سدپارہ نے دنیا كی دوسری بلند ترین چوٹی كے ٹو كو سردی كے موسم میں سر كر لیا تھا۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان