شیرانی: عدالت کا 214 افغان باشندوں کی ملک بدری کا حکم

گرفتار افراد میں کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ ان کے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود تھیں پھر بھی انہیں گرفتار کیا گیا۔

افغان شہریوں کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیشی کے بعد ملک بدر کیا جا رہا ہے (تصویر:حمیداللہ شیرانی)

بلوچستان کے ضلع شیرانی کی حدود سے قانونی دستاویزات نہ ہونے پر گرفتار کیے جانے والے 214 افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

گذشتہ روز ان افغان باشندوں کو ژوب مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا جنہوں نے ان کو ڈی پورٹ کرنے کا حکم دیا۔

گرفتار ہونے والوں میں 37 خواتین اور 177 مرد شامل تھے۔

ان لوگوں میں ایک نوبیاہتا جوڑا بھی شامل ہے جنہوں نے شادی کی پہلی رات جیل میں گزاری۔

نجیب اللہ کا تعلق افغانستان کے علاقے میدان وردگ سے ہے۔ ان کی شادی 22 جولائی کو کوئٹہ میں ہوئی اور ان کے سسرال والے افغانستان سے آئے تھے اور وہ خود پنجاب کےعلاقے چکوال سے تعلق رکھتے ہیں۔

نجیب اللہ  نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’جس روز ہماری شادی ہوئی اور ہم لوگ پنجاب جارہے تھے۔ جب ہم لوگ دہانہ سر پہنچے تو گاڑی والے نے ہمیں ہوٹل میں بٹھا کر کہا کہ وہ راستے کے حالات دیکھ کر واپس آئے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران سکیورٹی اہلکار وہاں پر آئے اور انہوں نے نجیب اللہ کو فارن ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا۔ جس کے باعث ’ہماری شادی کی پہلی رات جیل میں گزری۔‘

گرفتار افراد میں کچھ لوگوں نے شکایت کی کہ ان کے پاس قانونی دستاویزات بھی موجود تھیں پھر بھی انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں ایک عمران بھی شامل ہیں جن کا تعلق افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ہے۔

انہوں نے فون پر بتایا کہ وہ گذشتہ 25 سال پشاور کی نمک منڈی میں رہائش پذیر ہیں۔ قانونی دستاویزات بھی ان کے پاس موجود ہیں۔

عمران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کے پاس مہاجر کارڈ بھی موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کو گرفتار کرکے جیل منتقل کیا گیا۔‘

عمران کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ بیمار ہیں۔ جن کے معائنہ کےلیے وہ پشاور جارہے تھے اور ان کے خاندان کے نو افراد بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔

’شیرانی کے علاقے دہانہ سر کے قریب گاڑی والے نے ہمیں اتار دیا تھا۔ ہمیں پیدل سرحدی علاقہ پار کرنے کا کہا گیا تھا۔‘

فارن ایکٹ کے تحت گرفتار افراد میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ جن میں سے کچھ حاملہ اور بعض مریض بھی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر اس معاملے کو قانونی طریقےسے حل کرنے کے لیے کوشش کرنے والے وکیل داؤد خان شیرانی نےبتایا کہ ’پولیس کی طرف سے 214 افراد کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ نمبر تین 2022 کےتحت درج کیا گیا۔‘

داؤد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان لوگوں کو 22 جولائی کو سنگر دہانہ سر نے گرفتار کیا تھا۔‘

داؤد نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو بھی فارن ایکٹ کے مقدمے میں نامزد کردیا۔‘

ان کے وکیل نے جہاں ایک طرف ان کی قانونی مدد کی دوسری جانب ان کا ڈاکٹرز سے معائنہ بھی کروایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری درخواست پر اور ان لوگوں کی تکلیف کے پیش نظر عدالت نے ان کو 100 روپے جرمانہ کرکے ڈی پورٹ کرنے  کا حکم دیا۔‘

ادھر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک افسرسلطان آفریدی نے بتایا کہ ’جو لوگ فارن ایکٹ کے تحت گرفتار ہوتے ہیں۔ ان کو پولیس اور ایف آئی اے ڈی پورٹ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے کیسوں میں گرفتار افراد کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کردیا جاتا ہے۔ جہاں سے ان کو فی کس 500 روپے سے ایک ہزار روپے جرمانہ کرکے ڈی پورٹ کرنے  کا حکم دیا جاتا ہے۔‘

سلطان آفریدی نے کہا کہ ’ہمارے پاس ایرانی باشندوں کو گرفتارکرکے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں کیوں کہ ان کے حوالے سے حکومت پاکستان اور ایران حکومت نے معاہدہ کیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جو بھی ایرانی باشندہ اگر یہاں پکڑا جائے تو اسے ایرانی قونصلیٹ کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں ایران میں پکڑے جاتے ہیں ان کو بھی ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔ تاہم افغانستان کے ساتھ ہمارا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘

اس واقعے کو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے والے جمعہ خان شیرانی نے بتایا کہ یہ واقعہ 27 جولائی کو ضلع شیرانی دہانہ سر کے مقام پر پیش آیا تھا۔

جمعہ نے بتایا کہ ’اب ضلعی انتظامیہ اب یہ کہہ رہی ہے کہ وہ گرفتار افغان باشندوں کو عام گاڑیوں میں چمن کے راستے منتقل کریں گے۔‘

دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عبدالحق رئیس کےآفس کی جانب سے بھی افغان باشندوں کی گرفتاری اور ان کو ڈی پورٹ کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان