صحافی اور ’عوامی مورخ‘ اختر بلوچ چل بسے

معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اختر بلوچ کو ’عوامی مورخ‘ قرار دیا ہے۔

صحافی و مورخ اختر بلوچ 54 برس کی عمر میں ہفتے کو کراچی میں انتقال کر گئے ہیں (تصویر: اختر بلوچ فیس بک)

کراچی کے سینیئر صحافی، کئی کتابوں کے مصنف، بلاگر، استاد اور سماجی رہنما اختر حسین بلوچ المعروف اختر بلوچ چل بسے۔

ان کی عمر 54 سال تھی۔ اختر بلوچ کے بھانجے نوید بلوچ نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ شب گارڈن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر اچانک طبیعت خراب ہونے کے بعد انتقال کرگئے۔

نوید بلوچ کے مطابق گذشتہ رات کو ساڑھے 10 بجے کے قریب انہوں نے گھر والوں کو بتایا کہ ان کو بے چینی سے ہورہی ہے۔ جس کے کچھ دیر بعد وہ انتقال کرگئے۔

گذشتہ کئی سالوں سے ہر روز کراچی پریس کلب کے کارڈ روم میں اختر بلوچ کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھنے والے کراچی کے سینیئر فوٹوگرافر اختر سومرو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جمعے کو آرٹس کونسل میں ہونے والے کسی میوزیکل پروگرام کی تیاریوں سے واپس آنے کے بعد اختر بلوچ نے انہیں بتایا کہ انہیں بخار ہوگیا ہے۔

’میں ان کے گھر پر ڈاکٹر لایا تو معلوم ہوا ہے ان کا بلڈپریشر لو ہوگیا ہے، اس لیے انہیں ڈرپ لگائی گئی۔ ہفتے کے روز بھی ان کا بلڈ پریشر کم رہا۔ رات کو پونے 12 بجے اطلاع آئی کہ ان کا انتقال ہوگیا۔

’ہم نے کئی سالوں تک روزانہ ایک ساتھ وقت گزارا۔ اختر بلوچ جیسے لوگ زندگی میں کم ہی ملتے ہیں۔ ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔‘

اختر بلوچ سندھ کے شہر میرپورخاص کے علاقے لالچند آباد میں واقع بلوچ محلہ کے رہائشی تھے۔ نوید بلوچ کے مطابق ان کی چار بہنیں اور پانچ بھائی تھے جبکہ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔

زمانہ طالب علمی کے بعد وہ روٹری کلب آف پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ جس کے بعد انہوں نے میرپورخاص سے صحافت کا آغاز کیا۔ کچھ عرصے بعد وہ حیدرآباد چلے گئے جہاں وہ روزنامہ کائنات کے بیورو چیف ہوگئے۔حیدرآباد میں اختر بلوچ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے ساتھ بھی کام شروع کردیا۔ ان دنوں سندھ میں طاقتور جاگیرداروں کی جانب سے غریب کسانوں سے جبری مشقت کرانے والا معاملہ عروج پر تھا۔ جس کے خلاف ایچ آر سی پی کی تحریک زوروں پر تھی۔ اختر بلوچ اس وقت اس تحریک میں بھی متحرک رہے۔

حیدرآباد میں صحافت کے دوران وہ کچھ عرصے کے لیے لاپتہ ہوگئے تھے مگر سندھ میں شدید احتجاج کے بعد وہ بازیاب ہوگئے۔

بازیابی کے بعد اختر بلوچ حیدرآباد سے کراچی چلے گئے۔ کراچی میں وہ بچوں کے حقوق کی تحفظ پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ’سوسائٹی فار دی پروٹیکش آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کے ساتھ کئی سال تک منسلک رہے۔

اختربلوچ کو انسانی حقوق کی معاملات کی فیکٹ فائنڈنگ پر عبور حاصل تھا۔

اختر بلوچ نے تمام عمر موٹرسائیکل پر سواری کی۔ کوئی بھی فرد ان سے کہیں جانے کی درخواست کرتا، وہ جگہ کتنی بھی دور کیوں نہ ہو، اختر بلوچ کبھی انکار نہیں کرتے اور اس فرد کو وہاں تک موٹرسائیکل پر لے جانا فرض سمجھتے۔

حیدرآباد میں انہوں نے اپنی موٹرسائیکل کے پیچھے نمایاں حروف میں لکھایا تھا ’عام آدمی‘ جس کے متعلق وہ دوستوں کو بتاتے کہ لوگ اپنے موٹرسائیکل پر پریس، عدلیہ، پولیس لکھتے ہیں، مگر وہ ایک ’عام آدمی‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

اختر بلوچ کئی سالوں تک پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے ساتھ بھی کام کرتے رہے۔ ان کو ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ پر عبور حاصل تھا۔

اختر بلوچ نے انگریزی اخبار ڈان کے آن لائن ایڈیشن ڈان ڈاٹ کام کے لیے کراچی پر لاتعداد بلاگز لکھے۔

ان بلاگز کے موضوعات کراچی، کراچی کی تاریخ، تاریخی مقامات اور کراچی کی شخصیات رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کچھ عرصے کے بعد ان بلاگز میں سے منتخب بلاگز کو اکٹھا کرکے ’کرانچی والا‘ کے نام سے تین جلدوں میں کتاب چھاپی گئی۔ اس کے علاوہ ان کی ٹرانسجینڈر کمیونٹی پر تحقیق ’تیسری جنس‘ کے نام بھی چھپی۔

معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اختر بلوچ کو ’عوامی مورخ‘ قرار دیتے ہوئے ان کی کتاب کرانچی والا کی دوسری جلد کے ابتدائیے میں لکھا کہ مجھے خوشی ہے کہ اختر بلوچ نے روایتی تاریخ سے ہٹ کر عام اور نادر لوگوں کی گم شدہ تاریخ کو تحریرکیا ہے۔

ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان کی تحقیق کا مقصد سندھ کے چھوٹے شہروں اور قصبوں کے رہنے والے ان لوگوں کو بھی منظرعام پر لانا ہے، جو بڑے شہروں کی چھاؤں میں کہیں گم ہوگئے تھے۔

اختربلوچ کوموسیقی، رقص اور راگ سے بھی رغبت تھی۔ وہ دوستوں کے اسرار پر کلاسیکل راگ گنگنایا کرتے تھے۔ محفل میں ساز بجنے پر وہ خود کو رقص کرنے سے نہیں روک پاتے۔

وہ حیدرآباد پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس (کےیوجے) کے کونسل رکن، جبکہ کراچی پریس کلب کے ایسوسی ایٹ رکن تھے۔

وہ گذشتہ کئی سالوں سے اپنا زیادہ تر وقت کراچی پریس کے کارڈ روم میں گزارتے۔

وہ کارڈ روم میں ایک مخصوص جگہ پر بیٹھتے، جہاں وہ وہ بلاگ لکھنے اور تحقیق کا کام کرتے۔ وہ روزانہ صبح سے رات گئے تک پریس کلب میں کارڈ روم ہی گزارتے۔

اختر سومرو کے مطابق وہ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور وزٹنگ لیچرار کام کرتے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں اردو پی ایچ ڈی کررہے تھے اور ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا ’اردو ادب میں انسان دوستی۔‘

اختر بلوچ کی نماز جنازہ فقیری مسجد گارڈن ویسٹ میں ادا کی گئی۔

ان کے انتقال کی خبر پر ان کے جاننے والوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ان کی تصاویر کے ساتھ اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے انہیں ’یاروں کا یار‘ قرار دینے کے ساتھ لکھا کہ ان کی اردو تحریر جاندار تھی۔

صحافی مطیع اللہ جان اور بلال فاروقی نے بھی اپنے دکھ کا اظہار کیا۔

صحافی اویس توحید نے کئی موضوعات پر انہیں انسائکلوپیڈیا قرار دیا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی ادب