کوٹلی: وزیر کو 19 سال پرانے قتل کے مقدمے میں 17 سال قید

ہائیر ایجوکیشن کے وزیر اور پی ٹی آئی کے رکن ملک ظفر اقبال پر 2003 میں آصف امیر شاہ نامی نوجوان کے قتل کا الزام تھا۔

ظفر اقبال سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی کے دور میں وزیر رہے اور موجودہ وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی کابینہ میں ہائیر ایجوکیشن کے وزیر ہیں (تصویر: اے جے کے اسمبلی)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ہائی کورٹ نے قتل کے 19 سال پرانے مقدمے میں وزیر ملک ظفر اقبال کو بدھ کو مجموعی طور پر 17 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی اور عدالتی حکم پر پولیس نے انہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کر کے ڈسٹرکٹ جیل کوٹلی منتقل کر دیا۔

ملک ظفر اقبال کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے اور وہ 2021 کے انتخابات میں قانون ساز اسمبلی کے حلقہ ایل اے 8 کوٹلی 1 راج محل سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ظفر اقبال سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نیازی کے دور میں وزیر رہے اور موجودہ وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی کابینہ میں ہائیر ایجوکیشن کے وزیر ہیں۔

 ملک ظفر اقبال پر الزام تھا کہ انہوں نے 2003 میں کالج طلبہ کے ایک جھگڑے کے بعد اپنے دو درجن کے قریب ساتھیوں کے ہمراہ 21 سالہ نوجوان امیر آصف شاہ نقوی کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ وہ اس الزام میں پہلے ہی تین سال کے لگ بھگ قید کاٹ چکے ہیں۔

2008 میں ضلع قاضی کوٹلی نے ملک ظفر اقبال کو موت کی سزا سنائی تاہم سیشن کورٹ نے انہیں الزامات سے بری کر دیا۔ اس فیصلے کے خلاف مقتول امیر آصف شاہ کے ورثا نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو 14 سال تک ہائی کورٹ میں زیر کار رہی۔

سزا سنانے والے ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ میں جسٹس سردار اعجاز احمد خان اور جسٹس خالد رشید چوہدری شامل تھے۔ ملک ظفر کی جانب سے کیس کی پیروی راجہ محمد شفاعت ایڈوکیٹ اور راجہ محمد ساجد ایڈوکیٹ نے کی۔

الزام ثابت ہونے پر ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کا بریت کا فیصلہ معطل کر دیا اور ضلع قاضی کے سزائے موت کے فیصلے کو 14 سال قید بامشقت اور 10 لاکھ روپے جرمانے میں بدل دیا۔ ملک ظفر کو ممنوعہ اسلحہ رکھنے کا جرم ثابت ہونے پر تین سال قید کی بھی سزا سنائی گئی۔

مقتول نوجوان امیر آصف شاہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کوٹلی میں کاروبار کرتے تھے۔ کیس تفصیلات کے مطابق ان کے چھوٹے بھائی کا ملک ظفر کے بھائی کے ساتھ کالج سے واپسی پر جھگڑا ہوا جو بعد ازاں 21 سالہ امیر آصف شاہ کے قتل کا باعث بنا۔

مقتول نوجوان کے چھوٹے بھائی ارشد شاہ نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اور ان کے خاندان نے 19 سال تک انصاف کے حصول کی جنگ لڑی اور ’آج یقین ہے کہ امیر آصف کی روح کو قرار آیا ہو گا۔‘

مقتول امیر آصف شاہ کی ایک بہن عشرت ناز شاہ برطانیہ میں مقیم ہیں اور سلاو شہر کی میئر رہ چکی ہیں۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد عشرت ناز شاہ نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’اپنے بھائی کے قتل کے بعد انصاف کے لیے ہم نے 19 سال انتظار کیا اور آخری فتح انصاف کی ہوئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔‘

عشرت ناز شاہ نے مزید لکھا: ’ہم طاقت کو خدائی سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک خدا بھی ہے۔‘

ملک ظفر آقبال کا سیاسی مسقبل کیا ہو گا؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عبوری آئین 1974 کے آرٹیکل 24 سب آرٹیکل 2 سی اور الیکشن ایکٹ 2020 دفعہ 31 کلاز 2 سب کلاز 3 کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزا کی صورت میں قانون ساز اسمبلی کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔

تاہم اس کا باقاعدہ اطلاق الیکشن کمیشن کی جانب سے رکن اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے وکیل ذوالقرنین نقوی کے مطابق ہائی کورٹ کی سزا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کا حق ہر ملزم یا مجرم کے پاس موجود رہتا ہے۔ ضابطہ فوجداری 1898 کے آرٹیکل 426 کے تحت سزا کی معطلی اور ضمانت کے لیے 60 دن کے اندر اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے۔

ان کے بقول متعلقہ دفعہ 426 کی پیچیدگیوں سے قطع نظر اپیلٹ کورٹ کو یہ قانونی اختیار حاصل ہے کہ سزا معطل کرکے اپیل کو سنا جائے یا کہ دفعہ 426 ون سی کے تحت کورٹ کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔

سزا معطل ہونے کی صورت میں ملک ظفر اقبال کی اسمبلی کی رکنیت سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک بچ سکتی ہے۔ البتہ 426 ون سی کے تحت کارروائی آگے بڑھانے کی صورت میں اسمبلی رکنیت ختم ہو جائے گی اور وہ وزیر بھی نہیں رہیں گے۔

ذوالقرنین نقوی کے مطابق یہ الیکشن کمیشن پر اور سپیکر قانون ساز اسمبلی پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اپیلٹ کورٹ سے سزا معطلی کا انتظار کریں یا پھر ہائی کورٹ سے سنائی گئی سزا کے تحت ملک ظفر کی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کی کارروائی کا آغآز کریں۔

ملک ظفر کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں جلد چیلنچ کیا جائے گا۔ تاہم ملک ظفر، ان کے رشتہ داروں یا وکلا اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس فیصلے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان