نیویارک کے یہودی شہری ان انتخابات سے ایک دن قبل بے چینی اور تناؤ کا شکار ہیں جن کے نتیجے میں شہر کو پہلا مسلم میئر مل سکتا ہے۔
ظہران ممدانی وہ امیدوار ہیں جنہوں نے شہریوں کے لیے نیویارک کو سستا اور منصفانہ بنانے کے وعدوں کے ذریعے کئی ترقی پسند یہودی ووٹرز کو اپنی طرف کھینچا ہے۔
مگر اسی دوران اُن کے اسرائیل کے بارے میں کڑے بیانات جن میں اُنہوں نے غزہ میں اسرائیلی فوجی جارحیت کو نسل کشی قرار دینے جیسی باتیں بھی کہیں — نے نیویارک اور پورے امریکہ میں کئی یہودیوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔
سیاسی طور پر متنوع اس گروہ میں پائی جانے والی کشیدگی کا اظہار جمعے کو مرکزی سنیگاگ کی رہنما ربائی آنگیلا بوخڈال نے اپنے سرمن میں کیا۔
بوخڈال ملک کی سب سے نمایاں ریفارم سینیگاگ رہنماؤں میں شامل ہیں۔
انہوں نے ممدانی کے اسرائیل بارے بیانات پر سخت نکتہ چینی کی، مگر اُنہوں نے ممدانی کے حریفوں اینڈرُو کووومو یا ری پبلکن کرٹس سلیوا کی حمایت سے انکار کرتے ہوئے نیویارک کے یہودیوں سے سیاسی ذاتی جنگوں کو کم کرنے کی اپیل کی۔
’یہ ہم سب کے لیے خطرہ ہے: یہ اسی طرح ہے کہ ہم دوسرے یہودیوں پر ایک لِٹمس ٹیسٹ لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بنیادی طور پر کہنا کہ آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف۔‘
بوخڈال کو اس بیان پر کچھ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے ملک بھر میں 1,000 سے زائد یہودی مذہبی رہنماؤں کے اُس بیان پر دستخط نہیں کیے جو ممدانی کی مذمت کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اصولی طور پر وہ امیدواروں کی تائید نہیں کرتیں اور نہ ہی مشترکہ بیانات پر دستخط کرتی ہیں۔
اپنی سرمن میں بوخڈال نے کہا کہ ممدانی نے ایسے الفاظ استعمال کیے جو، اُن کے بقول، نہ صرف اسرائیلیوں کو بطور شیطان پیش کر رہے تھے، بلکہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ دنیا بھر کے یہودی ہمارے مسئلوں کی جڑ ہیں۔
ممدانی نے انتخابی مہم کے دوران یہودی ووٹرز سے رابطے کی کئی پیشکشیں کیں، نیویارک میں یہود دشمنی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے فنڈنگ بڑھانے کا وعدہ کیا اور مشرقِ وسطیٰ میں تشدد کی بار بار مذمت کی۔ انہوں نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کی کارروائی بھی ’جنگی جرم‘ قرار دی۔
تاہم ممدانی فلسطینی حقوق کے طویل المدت حامی رہے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر اگر کبھی اسرائیلی وزیرِ اعظم نیویارک آئے تو انہیں گرفتار کرنے کی ہدایت پولیس کو دیں گے۔
یہودی دشمنی کے طور پر اُن کے نظریات کے الزام کے جواب میں ممدانی اکثر ایک ایسے اسرائیلی آدمی کا حوالہ دیتے ہیں جس کا بھائی سات اکتوبر کو مارا گیا تھا، اور ممدانی اس کا وہ اقتباس دہراتے ہیں کہ ’ہمیں اس عقیدے سے کبھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے کہ ہر انسانی جان، اسرائیلی اور فلسطینی، یہودی اور عرب، یکساں طور پر قیمتی ہے۔‘
اہم رہنما: فیصلہ آسان نہیں
بوخڈال کی طرح ہی، یونین فار ریفارم جیوزش کے صدر ربائی رِک جیکبز نے بھی سیاسی حمایت سے گریز کرتے ہوئے نیویارک کے یہودیوں کے نام ایک کھلے خط میں لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میئر کے انتخاب کا فیصلہ سادہ ہے، تو میں احتراماً عرض کروں گا کہ آپ توجہ نہیں دے رہے میں اپنی یہودی برادری اور تمام نیویارک والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ووٹ دیتے وقت ہمارے شہر کے درپیش کئی فوری مسائل پر غور کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں گواہی دے سکتا ہوں کہ ظہران ممدانی یہودی برادری کی حفاظت کے بارے میں غافل نہیں۔ پبلک انٹرویوز اور ایک ذاتی ملاقات میں نے ان سے سنا ہے کہ وہ یہودی برادری کی حفاظت کے لیے وعدہ کرتے ہیں۔‘
رک جیکبز نے یہ لکھا مگر بعد ازاں ممدانی کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے۔
’ممدانی مستقل طور پر کہتے آئے ہیں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل ایک ایسا ریاستی حق رکھتا ہے جو سب شہریوں کا ہو، مگر بطور ایک یہودی ریاست نہیں، ان کا یہ استدلال کسی سیمینار میں تو ٹھیک لگ سکتا ہے؛ حقیقت میں یہ شدید تشویشناک ہے۔‘
یہودی صفوں میں تقسیم کی مثال کے طور پر، ساتمار ہاسِڈک کمیونٹی کے مختلف فرّقات نے ممدانی اور کووومو دونوں کی حمایت کے الگ الگ اعلانات کیے ہیں۔
اتوار کو، برُکلن میں ایک ملاقات میں یہودیوں کے ایک فرقے ’ اِہرونِم‘ کے رہنما ربی موشے اندِگ نے ممدانی کی حمایت کا اعلان کیا اور امیدوار کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے تصویر بھی کھنچوائی۔ چند ہی گھنٹوں میں، اِس فرقے کے تین دیگر قائدین نے اندِگ کے عمل کی تردید کی اور کووومو کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
سیاست میں بائیں بازو کے مبصر اور مصنف پیٹر بین ہارٹ نے حالیہ ویڈیو میں اس تلخی پر دکھ کا اظہار کیا جو بہت سے یہودی رہنماؤں کی جانب سے ممدانی پر برس رہی ہے۔
بین ہارٹ نے کہا کہ انہیں اندیشہ ہے ’کہ منظم امریکی یہودی برادری بغیر کسی شرط کے اسرائیل کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے تقریباً ہر چیز قربان کرنے کو تیار ہے، ہر دوسری قدر، ہر دوسرا اصول اس کے ماتحت ہو گیا ہے۔
’آپ کیا کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں؟ تاکہ ایک ایسے میئر کو روکا جا سکے جو کہتا ہے کہ اسرائیلی یہودی اور فلسطینی ایک ہی قانون کے تحت یکساں طور پر رہیں؟ آپ ایسے امیدوار کو تباہ کرنے کے لیے کیا کرنے کو تیار ہیں؟ جواب یہ ہے؛ تقریباً ہر کسی کے ساتھ جھوٹ بولنا، کچھ بھی کر جانا۔‘