نو حلقے اور ایک کپتان

عمران خان کا شوق سلامت، سوال مگر یہ ہے کہ ایک امیدوار کو بیک وقت کتنے حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ بھارت میں اگر اس نکتے پر قانون سازی ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتی؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ضمنی انتخابات میں نو حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے(فوٹو: عمران خان آفیشل فیس بک اکاؤنٹ)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:


عمران خان نے ضمنی انتخابات میں نو حلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آئندہ بھی جس نشست سے ہمارا استعفیٰ قبول ہوگا وہاں ضمنی انتخابات میں عمران خان امیدوار ہوں گے۔

عمران خان کا شوق سلامت، سوال مگر یہ ہے کہ ایک امیدوار کو بیک وقت کتنے حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ بھارت میں اگر اس نکتے پر قانون سازی ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتی؟

قانون کے مطابق ایک آدمی ایک ہی نشست اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوتا ہے تو اسے ایک کے علاوہ باقی سیٹیں چھوڑنا ہوتی ہیں اور ان نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے۔ پاکستان میں آج تک کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ اس صورت میں ضمنی انتخاب کے اخراجات غریب قوم کیوں برداشت کرے؟

ضمنی انتخابات مذاق نہیں ہوتے۔ ایک حلقے کے انتخاب پر کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ بیلٹ پیپر چھپتے ہیں، انتخابی سازو سامان تیار کیا جاتا ہے، پولیس اور انتظامیہ کی ڈیوٹی لگتی ہے، مختلف محکموں سے عملہ لیاجاتا ہے۔ غرض اخراجات کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاشی بحران سے دوچار قوم کسی انوکھے لاڈلے کے لیے یہ اخراجات کیوں کرے؟

ضمنی انتخاب اگر کسی ناگزیر صورت میں ہو تو اسے تو پورا کیا جا سکتا ہے، جیسے کوئی حادثہ ہو جائے،کسی رکن اسمبلی کا انتقال ہو جائے تو منطقی سی بات ہے کہ وہاں ضمنی الیکشن ہوگا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی سیاسی ضرورت یا مقبولیت کا پرچم گاڑنے کے لیے نو حلقوں سے الیکشن لڑتا ہے تو اس صورت میں ضمنی انتخابات کے اخراجات قومی خزانے سے کیوں لیے جائیں؟ اسی شخص سے کیوں نہ کہا جائے کہ جناب والا! اس شوق کی ایک قیمت ہے، ضمنی انتخابات کا خرچ اب آپ نے اٹھانا ہے۔

ضمنی انتخاب کی ایک اور صورت بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کسی کی ڈگری جعلی ثابت ہوتی ہے یا اس کا بیان حلفی جھوٹا نکلتا ہے تو الیکشن کمیشن اسے ڈی سیٹ کر کے وہاں ضمنی الیکشن کروا دیتا ہے، لیکن اس سوال پر کوئی غور نہیں کرتا کہ جس شخص کی جعلی ڈگری یا جھوٹے حلف نامے کی وجہ سے پورے حلقے کو ایک بار پھر الیکشن کی مشق سے گزرنا پڑ رہا ہے، اس الیکشن کے اخراجات تو کم از کم قومی خزانے سے لینے کی بجائے اس شخص سے لیے جائیں۔

بھارت میں اس نکتے پر قانون سازی ہو چکی ہے اور یہ عمل جاری ہے۔ نوے کی دہائی تک وہاں بھی لنگر خانہ کھلا تھا اور ہر ایک کو آزادی تھی کہ چاہے تو تین حلقوں سے کھڑا ہو جائے۔ یہ وہاں کا الیکشن کمیشن تھا جو اس معاملے کو سپریم کورٹ لے گیا اور یہ طے کروا لیا کہ ایک امیدوار زیادہ سے زیادہ دو حلقوں سے کھڑا ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی الیکشن کمیشن نے اب وزارت قانون سے کہہ رکھ ہے کہ قانون میں مزید ترمیم کی جائے اور ایک آدمی کو صرف ایک حلقے تک محدود کر دیا جائے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے یہ تجویز بھی دے رکھی ہے کہ اگر ایک امیدوار کو ایک سے زیادہ حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دینی ہے تو پھر ان حلقوں کے انتخابی اخراجات اس امیدوار یا اس کی جماعت سے وصول کیے جائیں۔

 ایسا ہی کوئی مطالبہ پاکستان کا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کرتا؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قائدین کرام کبھی پانچ حلقوں سے الیکشن لڑیں اور کبھی نو حلقوں سے اور پھر ان کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کے اخراجات غریب قوم کی جیب کاٹ کر پورے کیے جائیں؟

فیصل واوڈا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ قومی اسمبلی کی رکنیت سے نا اہل ہوئے تو ان کی خالی کردہ سیٹ پر ضمنی الیکشن ہوا۔ یہ ضمنی الیکشن فیصل واوڈا کی وجہ سے ہوا۔ امریکی شہریت انہوں نے چھپائی تھی۔ غلطی ان کی تھی۔ سزا کس کو ملی۔ ان کے حلقے کو، انتخابی عملے کو، ووٹر کو اور قومی خزانے کو۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ ان کی غلط بیانی کی وجہ سے جو ضمنی الیکشن کروانا پڑا اس کے اخراجات انہی سے یا ان کی جماعت سے لیے جاتے؟

شاہ محمود قریشی کو دیکھ لیجیے۔ ان کے صاحبزادے زین قریشی ایم این اے تھے۔ استعفیٰ دیا اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر پنجاب اسمبلی کے رکن بن گئے۔ ان کی خالی کردہ سیٹ پر قریشی صاحب کی صاحبزادی مہر بانو قریشی الیکشن لڑنے جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ترتیب کی درستگی کی سزا عوام کو کیوں دی جائے۔ اس ضمنی الیکشن کے اخراجات قریشی صاحب کے بچوں یا ان کی جماعت سے کیوں نہ لیے جائیں؟

یہ سوچنا تحریک انصاف کا کام ہے کہ قومی اسمبلی سے استعفوں کے بعد قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا کیا فائدہ؟ یہ سوچنا بھی انہی کا کام ہے کہ نو نشستوں میں سے کوئی ایک جیت کر اسمبلی جانا ہے یا پھر سے استعفیٰ دینا ہے؟ یہ بھی انہی کا درد سر ہے کہ ایک سے زیادہ نشستیں جیتنے کی صورت میں خالی کردہ نشستوں پر پھر عمران خان نے ہی کھڑا ہونا ہے یا کسی اور نے؟ ایک شہری کے طور پر میرا سوال صرف یہ ہے کہ اس انوکھے شوق کے اخراجات تحریک انصاف سے لیے جائیں گے یا غریب قوم کی جیب سے نکالے جائیں گے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ