مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو پر پابندی: جرمن چیمبر آف کامرس کا پاکستان کو انتباہ

جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس کی جانب سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ جرمن گاڑیاں پاکستان منگوانے پر عائد پابندی ختم کی جائے ورنہ یہ معاملہ پاکستان جرمنی تعلقات اور پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

جرمنی میں مرسڈیز بینز کی ایک فیکٹری میں 29 جنوری 2020 کو اسمبلی لائن پر موجود ایک گاڑی (فائل تصویر: اے ایف پی)

جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو لکھے گئے ایک خط میں تنبیہ کی ہے کہ حکومت جرمنی سے گاڑیاں منگوانے پر عائد پابندیاں ختم کرے ورنہ یہ معاملہ یورپی یونین میں پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس کے ساتھ جرمنی اور پاکستان کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔

پاکستان کو 2023 میں اپنا جی ایس پی سٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے دوبارہ درخواست دینا ہو گی۔

مکمل طور پر تیار گاڑیاں بیرون ملک سے منگوانے پر یہ پابندی موجودہ حکومت کی جانب سے 19 مئی 2022 کو لگائی گئی تھی، جس میں تمام ممالک کی گاڑیوں سمیت 38 ’پرتعیش اشیا‘ شامل تھیں۔ خط کے مطابق اس پابندی سے جرمن کار ساز کمپنیوں کے لیے پاکستان میں اپنا کاروبار جاری رکھنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔

رواں ہفتے لکھے گئے اس خط کے مندرجات کے مطابق: ’جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری آٹو موٹیو سیکٹر پر عائد درآمدی پابندی فوری طور پر ختم کرنے کی پر زور سفارش کرتا ہے۔ موجودہ بحران درآمدی پابندی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور اس طرح کے اقدامات جرمنی کے کارساز اداروں کو پاکستان کی مارکیٹ سے باہر نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘

’نتیجتاً پاکستان میں موجود 30 ہزار سے زائد جرمن گاڑیاں (آڈی، بی ایم ڈبلیو، مرسیڈیز بینز) ناقابل استعمال ہو جائیں گی اور ان گاڑیوں کی ضروری دیکھ بھال کے لیے مہارت اور جدید ٹیکنالوجی بھی مستقبل میں پاکستان کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔‘

خط میں مزید کہا گیا: ’درخواست کی جاتی ہے کہ پابندی کو فوری طور پر ہٹانے کے لیے اقدامات شروع کیے جائیں اور چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہدایات کو نافذ کرنے میں انتظامی طور پر کچھ دن لگیں گے، اس لیے ہم پابندیاں ہٹنے کے لیے کوئی ایک حتمی تاریخ دیے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔‘

جی ایس پی پلس سٹیٹس کے حوالے سے کہا گیا کہ ’جرمنی یورپی یونین میں جی ایس پی پلس سٹیٹس کی درخواست کے لیے ماضی میں پاکستان کا پرجوش حامی رہا ہے۔‘

تاہم ’جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس کو اس بات پر تشویش ہے کہ جرمن گاڑیوں کی درآمد پر پابندی کا یہ اقدام جرمنی کی جانب سے اس حوصلہ افزائی کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے، جو یورپی پارلیمنٹ میں جی ایس پی پلس سٹیٹس برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔‘

خط میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ پاکستان اور جرمنی کے تعلقات 70 سال پر محیط ہیں اور اس دوران 30 بڑی جرمن کمپنیاں پاکستان میں کاروباری طور پر فعال رہی ہیں، جن میں مرسیڈیز، آڈی، بی ایم ڈبلیو سمیت سمنز، بائر، ڈی ایچ ایل اور میٹرو کیش اینڈ کیری شامل ہیں۔

جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر سید ندیم علی کاظمی کی جانب سے درآمد پر لگی پابندی کے فائدہ مند ہونے پر بھی سوال اٹھایا گیا، جس کے مطابق جرمن آٹوموبائل کی درآمدات کا حجم اتنا زیادہ نہیں جس سے پاکستان کے توازن ادائیگی میں خسارے کا امکان ہو۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 22-2021 کے دوران پاکستان میں امپورٹڈ گاڑیوں (CBU) کی مجموعی درآمد 31 کروڑ ڈالر کی تھی، جو گذشتہ سال میں کی گئی پاکستان کی کل درآمدات کا 1.75 فیصد حصہ ہے۔

جرمنی ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جن کے ساتھ پاکستان کا تجارتی توازن مثبت ہے۔ 2021 میں پاکستان کی جرمنی کو برآمدات 1.568 ارب ڈالر رہیں جب کہ جرمنی سے درآمدات 1.016 ارب ڈالر تھیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے جرمن پاکستان چیمبر آف کامرس کے اس خط کے بعد وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے بذریعہ وٹس ایپ رابطے کے بعد سوال کیا کہ کیا واقعی جرمن چیمبر آف کامرس پاکستان کو اس طرح سے دھمکی دے سکتا ہے؟ اور کیا وزارت امپورٹڈ گاڑیاں منگوانے پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حوالے سے سوچ رہی ہے؟ تاہم یہ خبر فائل کیے جانے تک وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔

جی ایس پی پلس کیا ہے؟

1971 میں اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی کہ یورپین ملک ترقی پذیر ممالک کی برآمدات بڑھانے اور وہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ان ممالک کی مصنوعات کو یورپی منڈیوں تک رسائی دیں گے۔ یہ قرارداد کانفرنس آف ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ میں منظور کی گئی۔

اس قرارداد کے بعد ایک منصوبے (جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز) کے تحت یورپی منڈیوں تک پہنچنے والی مصنوعات کے ڈیوٹی ٹیرف کو ختم کیا گیا یا ان محصولات میں قابل قدر کمی عائد کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس منصوبے کے تحت جو ترقی پذیر ملک یورپی ممالک میں اپنی مصنوعات بھیج سکتے ہیں، ان کی درجہ بندی تین کیٹیگری سٹیٹس میں ہوتی ہے۔ جی ایس پی، جی ایس پی پلس اور ایوری تھنگ بٹ آرمز۔

پاکستان اس وقت جی ایس پی پلس سٹیٹس کا حامل ملک ہے اور ایسی دو تہائی پاکستانی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے، ان پر سے اسے کم کرکے صفر کر دیا گیا ہے۔

اس سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ شرائط ہوتی ہیں جن میں انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کا تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق شامل ہیں۔

جی ایس پی سٹیٹس حاصل کرنے والے ممالک کو ان شرائط کے معاملے پر یورپی یونین کی طرف سے مانیٹرنگ اور اخذ کردہ نتائج کو بغیر کسی تحفظات کے اظہار کے ماننا پڑتا ہے اور یورپی یونین کے ساتھ تعاون بھی ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔

یورپی یونین وقتاً فوقتاً ان شرائط پر عمل در آمد کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور ان پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں جی ایس پی پلس کا سٹیٹس واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013 میں ملا۔ پاکستان کے علاوہ اس وقت آرمینیا، بولیویا، کوسٹا ریکا، ایکواڈور، جارجیا، گوئٹے مالا، منگولیا، پانامہ، پیراگوئے اور پیرو جیسے ممالک جی ایس پی پلس کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت