خون خرابہ، افراتفری، معاشی بحران: یوکرین میں روسی جنگ کی قیمت

یوکرین پر روسی حملے کو آج چھ ماہ مکمل ہوچکے ہیں اور آج ہی یوکرینی شہری اپنا یوم آزادی بھی منا رہے ہیں۔ ان چھ ماہ کے دوران ہزاروں افراد ہلاک، زخمی اور بے گھر ہوچکے ہیں۔

یوکرین کے رضاکار جنگجو 22 اگست 2022 کو روسی حملے کے دوران دونیتسک کے علاقے میں فرنٹ لائن کے ساتھ ایک پوزیشن پر مارٹر لانچر تیار کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یوکرین پر روسی حملے کو آج چھ ماہ مکمل ہوچکے ہیں اور آج ہی یوکرینی شہری اپنا یوم آزادی بھی منا رہے ہیں۔ اس عرصے میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے جبکہ دنیا بھر میں معاشی تنازعات کے بیج بو دیے گئے ہیں۔

یوکرین کے یوم آزادی اور روسی حملے کے چھ ماہ مکمل ہونے کے موقعے  پر امریکہ بدھ کو کیئف کو تین ارب ڈالر کی مزید فوجی امداد کا اعلان بھی کرے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی  اے ایف پی کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے وائٹ ہاؤس کے منصوبے کے اعلان کی تصدیق کی جبکہ واشنگٹن نے خبردار بھی کیا ہے کہ ماسکو یوکرین کے یوم آزادی کے موقع پر بڑے شہری اہداف پر حملوں میں اضافے کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔

دوسری جانب یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ’روسی دہشت گردی‘ سے بچیں۔

امریکی فنڈنگ کی نئی قسط سے کیئف کو اپنی مسلح افواج کے لیے مزید ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر سامان حاصل کرنے میں مدد ملے گی جو مشرق اور جنوب میں روسی فوجیوں کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہے اور ہفتوں کے دوران کوئی بھی فریق نمایاں طور پر آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔

ماسکو نے خبردار کیا ہے کہ وہ صدر ولادی میر پوتن کے اتحادی اور ایک انتہائی قوم پرست دانشور کی بیٹی ڈاریا ڈوگینا کے قتل کے جواب میں ’کوئی رحم‘ نہیں کرے گا۔ اس قتل کا الزام روس نے یوکرین پر لگایا ہے۔

تاہم کیئف نے ہفتے کو ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری سے انکار کیا ہے جس میں بظاہر ڈوگینا کے والد الیگزینڈر ڈوگن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

روسی وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے کہا کہ حملے کی تحقیقات جلد مکمل کر لی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس تحقیقات کے نتائج کے مطابق کار بم دھماکے کا اہتمام کرنے، حکم دینے اور انجام دینے والوں پر کوئی رحم نہیں کیا جا سکتا۔

یوکرین میں روسی جنگ اب ساتویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے، ان سطور میں اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والے اب تک کے اہم اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اموات

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے 22 اگست کو کہا تھا کہ 24 فروری سے لے کر اب تک یوکرین میں پانچ ہزار587 شہری ہلاک اور سات ہزار 890 زخمیوں کا اندراج کیا گیا ہے حالانکہ اصل جانی نقصان بہت زیادہ ہے۔

او ایچ سی ایچ آر نے بتایا کہ ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر توپ خانے، میزائل اور فضائی حملوں جیسے دھماکہ خیز ہتھیاروں کا نشانہ بننے والے افراد تھے۔

دوسری جانب یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ویلیری زلوزنی نے 22 اگست کو کہا تھا کہ جنگ میں یوکرین کے تقریباً نو ہزار فوجی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں جو حملے کے بعد فوجی اعلیٰ حکام کی جانب سے فراہم کی جانے والی ہلاکتوں کی پہلی تعداد ہے۔ انہوں نے مزید کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

تاہم اب تک روس نے نہیں بتایا کہ اس کے کتنے فوجی مارے گئے ہیں۔

امریکی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے کہ یوکرین میں اب تک تقریباً 15 ہزار روسی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد اس سے تین گنا زیادہ ہے جو کہ 89-1979 میں افغانستان پر ماسکو کے قبضے کے دوران سوویت یونین کی ہلاکتوں کی کل تعداد کے برابر ہے۔

مشرقی یوکرین میں تنازع 2014 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب یوکرین کے میدان انقلاب میں ایک روس نواز صدر کا تختہ الٹ دیا گیا اور روس نے کریمیا کا الحاق کر لیا، اس تنازع میں روس کی حمایت یافتہ افواج یوکرین کی مسلح افواج سے لڑ رہی ہیں۔

او ایچ سی ایچ آر کے مطابق 2014 سے 2021 کے آخر تک کے درمیانی عرصے میں وہاں تقریباً 14 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تین ہزار 106 عام شہری بھی شامل ہیں۔

انسانی بحران

اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین نے کہا ہے کہ 24 فروری سے یوکرین کے ایک تہائی باشندوں یعنی چار کروڑ 10 لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھروں سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا ہے، جو دنیا میں انسانی بے گھری کا سب سے بڑا بحران ہے۔

ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت یورپ بھر میں یوکرین سے 66 لاکھ سے زائد پناہ گزین ریکارڈ کیے گئے ہیں، جن کی سب سے بڑی تعداد پولینڈ، روس اور جرمنی میں ہے۔

یوکرین کو نقصان

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 2014 میں کریمیا کے الحاق کے بعد سے یوکرین جانی نقصانات کے علاوہ اپنا تقریباً 22 فیصد علاقہ روس کے ہاتھوں کھو چکا ہے۔

یوکرین نے ساحلی پٹی کھو دی ہے، اس کی معیشت اپاہج ہو چکی ہے اور کچھ شہر روسی گولہ باری سے بنجر زمین میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے اندازہ لگایا ہے کہ 2022 میں یوکرین کی معیشت کے 45 فیصد سکڑنے کا امکان ہے۔

یوکرین کے لیے ڈالر کی حقیقی لاگت واضح نہیں ہے۔ وزیراعظم ڈینیس شمیہل نے جولائی میں کہا تھا کہ جنگ کے بعد مجموعی تعمیر نو پر تقریباً 750 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ یہ بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ یوکرین نے لڑائی پر کتنا خرچ کیا ہے۔

روس کو نقصان

یہ جنگ روس کے لیے بھی مہنگی رہی ہے۔ اگرچہ اس نے اب تک اپنے اخراجات کا نہیں بتایا جو ’ریاستی راز‘ ہیں۔

فوجی اخراجات کے علاوہ مغرب نے سخت پابندیاں عائد کرکے بھی روس کو سزا دینے کی کوشش کی ہے جو 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کی معیشت کو سب سے بڑا جھٹکا ہے۔

روس کے مرکزی بینک نے اب پیش گوئی کی ہے کہ 1.8 ٹریلین ڈالر کی معیشت 2022 میں چار سے چھ فیصد تک سکڑ جائے گی، جو اپریل میں اس کی پیش گوئی کے آٹھ سے 10 فیصد سکڑاؤ سے بھی کم ہے۔

اس کے باوجود روس کی معیشت پر اثرات شدید اور ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہیں۔

 اسے مغربی مالیاتی منڈیوں سے نکال دیا گیا ہے، اس کے زیادہ تر اشرافیہ پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور اسے مائیکرو چپس جیسی کچھ اشیا حاصل کرنے میں مسائل درپیش ہیں۔

روس نے گذشتہ ماہ 1917 کے بالشویک انقلاب کے بعد کے تباہ کن مہینوں کے بعد پہلی بار اپنے غیر ملکی بانڈز پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔

 معاشی اثرات

یوکرین پر حملے اور روس پر مغربی پابندیوں کے نتیجے میں کھاد، گندم، دھاتوں اور توانائی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا جس سے خوراک کا بحران پیدا ہوا اور افراط زر بڑھی، جس کے اثرات عالمی معیشت پر پڑ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روس سعودی عرب کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا تیل کا برآمد کنندہ ہے اور قدرتی گیس، گندم، نائٹروجن کھاد اور پلاڈیم کا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کے فوراً بعد تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 2008 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

روسی تیل، گیس اور تیل کی مصنوعات پر انحصار کم کرنے یا ان کی قیمتوں کو محدود کرنے کی کوششوں نے 1970 کی دہائی میں عرب تیل پر پابندی کے بعد توانائی کی سب سے شدید کمی کو مزید بڑھا دیا ہے۔

روس کی جانب سے جرمنی جانے والی نورڈ سٹریم ون گیس پائپ لائن کے ذریعے بہاؤ میں کمی کے بعد یورپ میں گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔

شرح نمو

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اب پیش گوئی کی ہے کہ رواں سال دنیا کی معیشت میں 3.2 فیصد اضافہ ہوگا جو گذشتہ سال کے 6.1 فیصد سے کم ہے اور اپریل میں اس کی 3.6 فیصد کی پیش گوئی سے کافی کم ہے، اس کی جنوری کی پیش گوئی 4.4 فیصد اور اکتوبر میں 4.9 فیصد ہے۔

ایک ’قابل یقین‘ متبادل منظر نامے کے تحت، جس میں سال کے آخر تک یورپ کو روسی گیس کی فراہمی میں مکمل کٹوتی اور روسی تیل کی برآمدات میں مزید 30 فیصد کمی شامل ہے، آئی ایم ایف نے کہا کہ عالمی نمو 2022 میں کم ہو کر 2.6 فیصد اور 2023 میں دو فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ اگلے سال یورپ اور امریکہ میں معاشی ترقی عملاً صفر ہو جائے گی۔

مغربی ہتھیار

امریکہ نے 24 فروری کے بعد سے یوکرین کو تقریباً 9.1 ارب ڈالر کی سکیورٹی امداد فراہم کی ہے جس میں سٹنگر اینٹی ایئرکرافٹ سسٹم، جیولین اینٹی آرمر سسٹم، 155 ملی میٹر ہوویٹزر اور کیمیائی، حیاتیاتی، ریڈیولوجیکل اور جوہری حفاظتی آلات شامل ہیں۔

یوکرین کو امداد دینے والا دوسرا بڑا ملک برطانیہ ہے جس نے 2.3 ارب پاؤنڈ (2.72 بلین ڈالر) کی فوجی مدد فراہم کی ہے۔ اسی طرح یورپی یونین نے یوکرین کو 2.5 ارب یورو (2.51 ارب ڈالر) کی حفاظتی امداد پر اتفاق کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا