پاکستان کی آدھی ٹیکسٹائل ملز بند کیوں پڑی ہیں؟

پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے مگر اس کے باوجود ٹیکسٹائل کے 10 بڑے برآمدی ممالک میں شامل نہیں ہے۔

کراچی کی ایک ٹیکسٹائل مل میں ایک مزدور کام کر رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دنیا میں ٹیکسٹائل مارکیٹ کا حجم تقریباً 10 کھرب ڈالر ہے جس میں سے چین 266 ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے مگر اس کے باوجود ٹیکسٹائل کے 10 بڑے برآمدی ممالک میں شامل نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کپاس کی پیداوار میں 40 ویں نمبر پر ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل میں 39 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس فہرست میں انڈیا کا نمبر پانچواں ہے اور وہ کپاس کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر موجود ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق گذشتہ مالی سال میں پاکستان نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں ریکارڈ 14.29 ارب ڈالر کی برآمدات کی تھیں جو ملک کی کل برآمدات کا 61.24 فیصد ہیں۔

ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستان میں سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے جس کے ساتھ پاکستان کی کل صنعتی لیبر کا 40 فیصد منسلک ہے لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں 1200 کے قریب ٹیکسٹائل ملز ہیں جن میں سے آدھی بند پڑی ہیں۔

فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کرونا کے دوران جو بوم آیا تھا وہ اب ریورس ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا: ’کرونا کے دوران پاکستان کی انڈسٹری چل رہی تھی جس کی وجہ سے ہمیں دنیا بھر سے آرڈر ملے اور ہماری انڈسٹری پوری استعداد کے ساتھ چلنا شروع ہو گئی جس کو دیکھتے ہوئے ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ صنعت کاروں نے انڈسٹری کو وسعت دینے کے لیے تقریباً 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی تاکہ اگر انہیں زیادہ آرڈر ملنا شروع ہوں تو وہ انہیں پورا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

1997 میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ 32 لاکھ ہیکٹر تھا جو 2021 میں 22 لاکھ ہیکٹر رہ گیا ہے۔

’مگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی گنا حالیہ اضافے کے بعد ان کے لیے عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی جس کی وجہ سے اضافی مشنری نہ صرف انسٹال نہیں ہو سکی بلکہ آدھی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور صرف فیصل آباد جیسے شہر میں ٹیکسٹائل سے وابستہ 15 سے 20 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے زوال کی ایک وجہ پاکستان میں خام کپاس کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی ہے۔ اگر صرف پچھلے 10 سال کا ڈیٹا دیکھیں تو 2010 میں پاکستان میں کپاس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں تھیں جو کم ہو کر پچھلے سال 74 لاکھ گانٹھیں رہ گئی ہیں۔ 1997 میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ 32 لاکھ ہیکٹر تھا جو 2021 میں 22 لاکھ ہیکٹر رہ گیا ہے۔‘

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن سندھ شاخ کے ترجمان شام لال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سالانہ ایک کروڑ 60 لاکھ گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس ضرورت کا نصف ہی اب ملک میں پیدا ہو رہا ہے، اس لیے صرف گذشتہ مالی سال میں پاکستان نے 3.9 ارب ڈالر کی کپاس اور اس سے وابستہ دوسرا خام مال درآمد کیا ہے۔‘

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ حکومتوں سے منسلک لوگوں کی شوگر ملیں ہیں اور انہوں نے وہ علاقے جہاں کپاس کاشت ہوتی تھی وہاں شوگر ملیں لگا لی ہیں، اس لیے کسانوں نے اب گنا کاشت کرنا شروع کردیا ہے۔‘

شام لال کے مطابق کپاس کی پیداوار میں کمی کی دوسری بڑی وجہ کسانوں کو اچھا بیج نہ ملنا بھی ہے۔ پاکستان کاٹن اینڈ جنرز ایسوسی ایشن کئی بار حکومتوں سے درخواست کر چکی ہے کہ اسے اچھا بیج درآمد کرنے کی اجازت دی جائے مگر اسے یہ اجازت نہیں دی جا رہی۔

چین میں اس وقت کپاس کا زیر کاشت رقبہ دنیا میں کپاس کے زیر کاشت رقبے کا صرف 15 فیصد ہے مگر وہ دنیا کی مجموعی کپاس کا 30 فیصد پیدا کر رہا ہے، جس کی وجہ اچھے بیج اور بہتر زرعی ٹیکنالوجی ہے۔

انڈیا جو 10 سال پہلے تک کپاس کی پیداوار میں پاکستان کے قریب تھا اب وہاں کپاس کی سالانہ پیداوار چار کروڑ گانٹھیں ہیں۔ پاکستان میں اس سال سیلاب سے بھی کپاس کی پیداوار مزید کم ہو جائے گی۔ ہمارے زرعی تحقیقی اداروں کی کارکردگی اس ضمن میں قابلِ ذکر نہیں ہے۔

شام لال نے بتایا کہ ’20 سال پہلے کینیڈا کی ایک کمپنی مانسینٹو جو زرعی تحقیق سے وابستہ تھی، وہ پاکستان آئی مگر یہاں اس کی پذیرائی نہیں ہوئی اور بعد میں وہ انڈیا چلی گئی۔ آج انڈیا کی کپاس سمیت زرعی پیداوار دیکھ لیں وہ کہاں پہنچ چکی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کسان بورڈ کے مرکزی صدر شوکت چدھڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کپاس کی پیداوار کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ تو پنجاب کی زمین میں کپاس کی فصل کی بارآوری کی شرح میں مسلسل کمی ہے۔ اس کی وجہ ناقص بیج ہے۔ کسانوں کو محکمے نے مسلسل ایسے بیج فراہم کیے جن کی کیڑے مکوڑوں کے آگے مدافعت کم تھی۔ امریکن سنڈی کا علاج آج بھی کسی کے پا س نہیں ہے، جس کی وجہ سے کسان کو کپاس کی فصل کی کاشت میں مسلسل خسارے کا سامنا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دوسری وجہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ اداروں کی جانب سے کسانوں کو مراعات کی عدم فراہمی بھی ہے۔ ٹیکسٹائل کی مقابلے میں جنوبی پنجاب میں شوگر ملیں لگائی گئیں تو مل مالکوں نے کسانوں کو بیج اور کھادیں فراہم کیں، جس کی وجہ سے کسان کپاس سے گنے پر شفٹ ہو رہا ہے اور کپاس کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔‘

شوکت چدھڑ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے اچھے بیج فراہم نہ کیے اور ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ لوگوں نے کسانوں کو مراعات نہ دیں تو کپاس کی پیداوار مکمل طور پر ٹھپ بھی ہو سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت