12 سالوں میں دو بار سیلاب سے متاثر ہونے والا خاندان

مشتاق احمد جمالی کا خاندان 2010 کے سیلاب سے متاثر ہوکر کراچی کے جس سکول میں پہنچا تھا وہیں وہ 2022 کے سیلاب سے متاثر ہوکر پہنچ گیا ہے۔

پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح جنوبی صوبہ سندھ میں مون سون کی طوفانی بارشوں اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔

سندھ کے سیلاب سے متاثرہ مختلف اضلاع سے کچھ متاثرین کراچی پہنچے ہیں۔

کراچی کے سچل گوٹھ، گلشن معمار، گلشن حدید اور دیگر علاقوں کی سرکاری عمارتوں، سکولوں میں عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں سیلاب متاثرین کے کھانے پینے کا بندوبست سرکاری اور فلاحی ادارے کر رہے ہیں۔

سیلاب سے متاثر ان خاندانوں میں جیکب آباد کی تحصیل ٹھُل کے رہائشی 86 سالہ مشتاق احمد جمالی کا خاندان بھی شمال ہے۔

2010 میں آنے والے سیلاب جسے اب عالمی سطح پر ’پاکستان سپر فلڈ 2010‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے دوران بھی مشتاق احمد جمالی کا خاندان شدید متاثر ہوا تھا۔

ان کے خاندان کے افراد 2010 کے سیلاب کے دوران کراچی پہنچے اور سچل گوٹھ کے ’نیو گرامر گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری سکول‘ میں قائم کیمپ میں ٹہھرے تھے۔

2022 کے سیلاب میں بھی ان کا خاندان دوبارہ اسی سکول میں پہنچا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مشتاق احمد جمالی نے بتایا کہ ’ہمارا گاؤں مکمل طور پر زیر آب آگیا ہے۔ کئی افراد چھتوں اور دیواروں تلے دب کر ہلاک ہوگئے۔ مویشی ڈوب گئے۔ ہم اپنے گھروں سے کچھ نہیں نکال پائے۔ صرف سر بچا کر یہاں پہنچے ہیں۔

’جب ہم گاؤں سے روانہ ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ سیلاب متاثرین روڈ کے کنارے کھلے آسمان تلے قطاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت ہے اور نہ ہی کچھ کھانے پینے کے لیے ہے۔‘ ’گڑہی خیرو سے شہداد کوٹ، قمبر، رتوڈیرو اور لاڑکانہ تک لوگ سڑک کنارے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سال سیلاب سے متاثرین کی تعداد 2010 والے سیلاب سے کئی گنا زیادہ ہے۔ 2010 میں پانی ایک مخصوص راستے سے گزرا تھا۔ باقی جگہوں سے پانی کے بہاؤ کو روک دیا گیا تھا۔ مگر اس بار سارا ملک ڈوبا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوری زندگی میں ایسی آفت نہیں دیکھی۔‘

مشتاق احمد جمالی کے مطابق اتنی تباہی تو جنگوں میں نہیں ہوتی۔ انہوں نے 1965 کی پاکستان بھارت جنگ بھی دیکھی ہے مگر اس میں بھی اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا اس بار سیلاب سے ہوا ہے۔‘

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اقوام متحدہ کے ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر مسٹر جولین ہارنیس کی ملاقات ہوئی ہے جس میں صوبے میں تباہ کاریوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

وزیراعلی سندھ نے انہیں بتایا ہے کہ 86 ہزار خیمے سندھ حکومت کے پاس موجود ہیں جبکہ اس وقت مزید 10 لاکھ خیموں سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ 15 اگست کے بعد جو تیز بارشیں ہوئی ہیں اس میں تقریباً تمام شہر ڈوب گئے ہیں اور لاکھوں کچے مکانات زمین بوس ہوگئے ہیں۔

اس پر جولین ہارنس کا کہنا تھا کہ میرپورخاص، سانگھڑ اور دیگر شہروں کا دورے کرکے سروے کیا جائے گا اور متاثرین کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان