پاکستان میں سیلاب: 24 گھنٹوں میں پانچ بچوں سمیت 73 اموات

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں پاکستان بھر میں بارشوں اور سیلاب سے کم سے کم 73 افراد کے مرنے کی تصدیق کی ہے۔

بلوچستان کے علاقے جعفر آباد میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ ایک خاندان 24 اگست 2022 کو محفوظ مقام کی طرف نقل مکانی کر رہا ہے (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق ملک میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے گذشتہ 24 گھنٹوں میں کم از کم 73 اموات ہوئی ہیں جن میں خیبر پختونخوا کے علاقے اپر دیر میں سیلابی ریلے کی زد میں آ کر ڈوبنے والے پانچ بچے بھی شامل ہیں۔

این ڈی ایم اے کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں میں سب سے زیادہ اموات سندھ میں ہوئیں، جہاں 54 افراد بارشوں اور سیلاب کی نذر ہوئے جبکہ پنجاب میں 13 اور بلوچستان میں پانچ اموات ہوئی ہیں۔

اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبے میں غیر معمولی سیلابی صورت حال کے پیش نظر اہم اقدامات لیے ہیں

ان کی جانب سے جاری ہونے والی بیان میں سیلاب متاثرین کے لیے امداد کی اپیل کی گئی۔

سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’اس سال سندھ میں معمول سے 600 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔‘

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے علاقے اپر دیر میں سکول سے واپسی پر پانچ بچے ندی پار کرتے ہوئے سیلابی ریلے کی زد میں آ گئے، جن میں سے تین کی لاشیں ریسکیو 1122 کو مل گئی ہیں۔ اسی طرح ضلع ڈیرہ اسمعیل خان میں بھی ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے علاقے اپر دیر میں پیش آنے والا واقعہ ایک ایسی ندی پر رونما ہوا جو عام حالات میں خشک رہتی تھی لیکن اس میں تیز بارش کی وجہ سے اچانک طغیانی آ گئی۔

یہ افسوس ناک واقعہ بدھ کی دوپہر کو پیش آیا جب اپر دیر کے گاؤں شلتلو کے ایک سرکاری سکول میں زیر تعلیم پانچ بچے سکول سے چھٹی کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔

ریسکیو 1122 اپر دیر کے سربراہ شاہ ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا ہے کہ ’ڈوبنے والے بچوں کی عمریں پانچ سے دس سال کے درمیان تھیں۔ جن میں سے تین بچے پہلی جماعت، ایک بچہ دوسری اور ایک بچہ چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھا۔‘ 

شاہ ولی نے بتایا ہے کہ ’تیز بارش کی وجہ سے ندی میں طغیانی تھی لیکن اس کے باوجود مسلسل کوششوں سے تین بچوں کی لاشیں تلاش کر لی گئی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دیگر دو بچوں کی لاشوں کی تلاش کا عمل اندھیرا ہو جانے کی وجہ سے روک دیا گیا ہے جو جمعرات کی صبح دوبارہ شروع ہو گا۔‘

شاہ ولی سے جب پوچھا گیا کہ یہ بچے کیسے سیلابی ریلے کی نذر ہوئے تو ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کا گھر ایک پہاڑی علاقے پر واقع ہے اور یہ روزانہ سکول جاتے ہوئے اس ندی کو پار کرتے ہیں۔

’عام دنوں میں اس ندی میں پانی نہیں ہوتا لیکن آج اس میں طغیانی کی وجہ سے سیلابی ریلے نے ان کو اچانک آ لیا۔‘ 

شاہ ولی نے بتایا کہ ’ایسا نہیں تھا کہ سیلابی ریلہ گزر رہا تھا اور یہ بچے پانی کو پار کر رہے تھے، بلکہ جب یہ بچے ندی کے درمیان میں پہنچے تو سیلابی ریلہ اچانک آیا جس سے بچے ڈوب گئے۔‘

اس واقعے کے بعد اپر دیر کے ڈپٹی کمشنر نے ضلعے میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو دریا کے کنارے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔

خیبر پختونخوا میں بارشوں کی وارننگ

خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے نے 23 اگست کو صوبے میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کی تھی جو 26 اگست تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

وارننگ کے مطابق انڈیا کے شہر مشرقی راجستھان سے کم دباؤ والی جگہ سے ہوا کا رخ پاکستان میں داخل ہونے کا امکان ہے جس سے ملک کے مختلف علاقوں میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ایڈوائزری کے مطابق شدید بارشوں سے دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی آسکتی ہے جبکہ بعض علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بھی ہے جس کی وجہ سے سیاحوں اور دیگر مسافروں سے محتاط رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔

سندھ میں شدید بارشوں کی وارننگ

سندھ میں بھی پی ڈی ایم اے کی جانب سے 24 اگست کو جاری ایک وارننگ میں صوبے کے کئی اضلاع میں بدھ کی رات سے شدید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

وارننگ میں کہا گیا ہے کہ تھر پارکر، میرپور خاص، عمر کوٹ، ٹھٹہ، سجاول، بدین، سانگھڑ، حیدر آباد، مٹیاری، ٹندو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، شہید بنظیر آباد (نواب شاہ)، دادو، جامشورو، قمبر شہداد کوٹ، خیر پور، نوشہرو فیروز، جیکب آباد، شکار پور، گھوٹگی، سکھر، لاڑکانہ اور کشمور میں جمعرات کی رات تک گرج چمک کے ساتھ شدید بارشوں کو امکان ہے۔

اس کے علاوہ کہا گیا ہے کہ شدید بارشوں کا یہ سلسلہ 26 اگست کو بلوچستان کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں پہنچنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے دادو، جامشورو اور قمبر شہداد کوٹ سمیت بلوچستان سے سندھ میں داخل ہونے والے ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔

وارننگ میں سندھ کے شہری علاقوں میں بھی سیلابی صورت حال کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

گذشتہ دو ماہ میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والا نقصان

قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کے مطابق رواں سال مون سون بارشوں کی وجہ سے بدھ 24 اگست تک 903 افراد مارے گئے اور1293 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد 293 کا تعلق سندھ سے ہے۔

بلوچستان میں 230، خیبر پختونخوا میں 169، پنجاب میں مجموعی طور پر بارشوں کی وجہ سے 164، گلگلت بلتستان میں نو، پاکستان کی زیر انتظام کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں ایک شخص کی موت ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بارشوں اور سیلاب کے باعث مرنے والوں میں بچوں کی شرح 36 فیصد ہے جبکہ مردوں کی شرح 42 فیصد اور 21 فیصد خواتین کی اموات ہوئی ہیں۔

رواں سال مون سون بارشوں کی وجہ سے این ڈی ایم اے کے مطابق چار لاکھ 95 ہزار سے زائد گھر اور دکانوں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا جبکہ بارشوں اور سیلاب کے باعث سات لاکھ سے زائد مال مویشی بھی مرے ہیں۔

اس کے علاوہ ملک میں مجموعی طور پر 150 کلومیٹر سڑکیں بھی بارشوں سے متاثر ہوئی ہیں جو اب قابل استعمال نہیں۔

این ڈی ایم اے کے جاری کردہ اعداد و شمار میں بارشوں اور سیلاب کی صورت حال سے اب تک مجموعی طور پر 31 لاکھ ایک ہزار 525 افراد متاثر ہوئے ہیں، 45 ہزار 598 افراد کو ریسکیو کیا گیا ہے اور ایک لاکھ 84 ہزار افراد امدادی کیمپس میں رہ رہے ہیں۔

حالیہ سیلابی صورت حال کی شدت

بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ہیومن اپیل کے پاکستان چیپٹر سے منسلک پروگرام مینیجر عامر ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’موجودہ سیلابی صورت حال کا حجم 2010 میں آنے والے سیلاب کے برابر یا اس سے بھی زیادہ معلوم ہو رہا ہے۔‘

عامر ممتاز نے بتایا کہ ’ہماری تنظیم کو فیلڈ آفسز اور متاثرہ علاقوں کے دیگر ذرائع سے موصول ہونے والی مصدقہ معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات بہت کشیدہ ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے اب تک ’پنجاب میں ضلع راجن پور، سندھ کے ضلع ٹھٹہ اور بلوچستان کے ضلع پشین میں امدادی کارروائیاں کی ہیں۔‘

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو درپیش خطرات

ہیومن اپیل کے پاکستان میں پروگرام مینیجر عامر ممتاز کہتے ہیں کہ ’سیلاب میں کھڑے پانی سے موذی وبائیں پھوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے جیسا کہ ہیضہ، اسہال، ملیریا اور ڈینگی۔‘

ایسے میں ان کا کہنا ہے کہ ’سیلاب سے متاثرہ افراد کو فوری طور پر خیموں یا کم از کم واٹر پروف ترپال فراہم کیے جائیں تاکہ وہ مزید بھیگنے اور سیلاب کے نتیجے میں پھوٹنے والی موزی بیماری سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔‘

عامر کا کہنا ہے کہ ’خصوصاً یہ موسم کھڑے پانی میں ڈینگی کے پھیلاؤ کا سیزن ہے۔ اس لیے متاثرین کو مچھروں سے بچنے کے نیٹ یا مچھر بھگانے والی یا مچھر کش ادویات چاہییں تاکہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلے سے جانوروں میں لمپی سکن جیسی جلد کی بیماری موجود ہے جو سیلاب کی وجہ سے مزید بڑھ سکتی ہے اور کھڑے پانی کی وجہ سے جانوروں میں بھی اسہال کی وبا آنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

عامر نے یہ بھی بتایا کہ سیلاب متاثرین کو اس وقت فوری طور پر تیار یا پکی پکائی خوراک کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کے پاس خشک خوراک کو پکانے کا کوئی بندوبست نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فوری طور پر سیلاب متاثرین کو ہائیجین کٹس یعنی صابن، تولیے، بالٹیاں اور لوٹوں کی بھی ضرورت ہے۔

سیلاب متاثرین کے لیے امداد

سندھ حکومت نے صوبے میں بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لیے سندھ فلڈ ریلیف فنڈ قائم کردیا ہے۔

اس فنڈ میں سندھ کی کابینہ کے اراکین ایک ماہ کی تنخواہ، گریڈ 17 سے اوپر کے سرکاری ملازمین پانچ دن کی تنخواہ، گریڈ 16 اور اس سے نچلے گریڈ کے تمام ملازمین دو دن کی تنخواہ کے برابر رقم جمع کروائیں گے۔

فنڈ کے قیام کے موقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’ہم سب متاثرہ لوگوں کے لیے خیمے، مچھر دانیاں، بستر، کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور دیگر چیزوں کا بندوبست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

منگل کو پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی بین الاقوامی برادری اور تنظیموں سے پاکستانی سیلاب متاثرین کی امداد کی اپیل کی تھی۔

بدھ کو معمول کی پریس بریفنگ کے دوران چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم متاثرین سے تعزیت کرتے ہیں اور ہمارے دل متاثرہ خاندانوں کے لیے غمزدہ ہیں۔‘

انہوں نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے سیلابی صورت حال پر پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے افسوس کا اظہار کیا ہے۔‘

’پاک چین اقتصادی راہداری کے سوشل اور لائیولی ہڈ تعاون کے تحت چین پہلے ہی چا ہزار خیمے، 50 ہزار کمبل اور 50 ہزار واٹر پروف ترپالیں پاکستان کو بھجوا چکا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے چین نے فیصلہ کیا ہے کہ 25 ہزار خیموں سمیت دیگر امدادی سامان بھی جلد از جلد بھیجا جائے۔ چین کی ریڈ کراس سوسائٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستان ہلال احمر کو تین لاکھ ڈالرز امداد دے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان