کیا امریکہ اب لوگوں کے لیے پرکشش نہیں رہا؟

امریکہ میں زیادہ پیسہ کمایا جا سکتا ہے لیکن اس کی ایک ذاتی قیمت چکانی پڑتی ہے اور باقی دنیا یہ نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ امریکی زندگی اس قیمت کے قابل نہیں۔

دو نومبر 2020 کی اس تصویر میں امریکی ریاست مشی گن میں منعقدہ ایک ماگا (میک امریکہ گریٹ اگین) ریلی میں شریک ایک شخص انگوٹھے کا نشان دکھا کر خوشی کا اظہار کر رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بین الاقوامی سطح پر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن صرف امریکیوں کے لیے۔ اصل میں، صرف ماگا (میک امریکہ گریٹ اگین) والے امریکیوں کے لیے۔ باقی دنیا کی طرح اب سمجھدار امریکیوں کا نظریہ بھی وسیع ہے۔

مجھے اس بات کا باقاعدگی سے سامنا کرنا پڑا ہے کہ باقی دنیا امریکہ کے بارے میں کیا سوچتی ہوگی کیوں کہ اس سال میں نے یورپ، ایشیا اور جنوبی امریکہ کا کافی سفر کیا۔

زوال پذیر سلطنت ہونے کے باوجود امریکہ روئے زمین کا سب سے طاقتور اور بااثر ملک ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سیاست میں سخت رائے رکھنے والے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

برطانیہ سے امریکہ منتقل ہونے کے بعد کی دہائی میں غیر امریکیوں کے خیالات میں تبدیلی دیکھنا قابل ذکر رہا ہے۔ شروع میں مجھے پتہ ہوتا تھا کہ غیر امریکی دلچسپی اور تجسس کے ساتھ اس ملک میں میرے تجربات کے بارے میں پوچھیں گے۔

وہ اکثر امریکہ کی تحریک اور جدت کی تعریف کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ترس اور ردعمل میں تبدیل ہوگیا جیسا کہ ’پتا نہیں لوگ وہاں کیسے رہتے ہیں‘ اور ’میں امریکہ میں کبھی نہیں رہوں گا۔‘

سپین کے شہر ملا گا میں میری ملاقات وینزویلا کی ایک فوٹو گرافر سے ہوئی جو یہ جاننے کی خواہش مند تھیں کہ آیا امریکی معاشرہ حقیقی زندگی میں اتنا ہی منتشر ہے، جتنا ان دنوں ٹوئٹر پر لگتا ہے (افسوس کی بات ہے کہ مجھے اثبات میں جواب دینا پڑا)۔

شادی کے لیے سپین منتقل ہونے سے قبل وہ سات سال تک امریکہ میں رہیں لہٰذا ان کے اس ملک سے وسیع سماجی روابط ہیں۔

انہوں نے کہا: ’میرے امریکی دوست مجھے کہتے ہیں کہ واپس آجائیں کیوں کہ فوٹوگرافر امریکہ میں بہت زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔‘ بعد ازاں کہا کہ اجرت چاہے کتنی بھی ہو وہ مجھے امریکہ جانے پر قائل نہیں کرسکتے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا کام زیادہ اچھا نہیں جا رہا، وہ سپین میں رہ کر خوش ہیں، جہاں وہ اپنے بچے کے لیے نجی اسکول کی متحمل ہو سکتی ہیں اور انہیں سکول میں فائرنگ کی فکر بھی نہیں ہے۔

انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کی زندگی سست اور افسر شاہی ہے لیکن میں اسے امریکی غیر فعالیت پر برتری دوں گی۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکی زندگی یورپ کی زندگی سے زیادہ دلچسپ ہوسکتی ہے، لیکن ایک بار جب آپ کے بچے پیدا ہو جائیں تو یہ خطرہ مول لینے کے قابل نہیں ہے۔

میں نے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں فارمیسی کے ایک 19 سالہ طالب علم سے بات کی جو ڈوبتے ہوئے جہاز کو چھوڑنے کے لیے بے چین ہیں، جسے عام طور پر بریگزٹ برطانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ملک کے لیے سنگین معاشی امکانات اور فارماسسٹوں کے لیے کم تنخواہ کا حوالہ دیا۔

جب میں نے مشورہ دیا کہ وہ امریکہ منتقل ہونے پر غور کریں کیونکہ فارمیسی والوں کو وہاں بہت اچھی تنخواہ دی جاتی ہے تو وہ فورا پیچھے ہٹ گئے۔ انہوں کہا کہ امریکیوں پر چھ ہندسوں والا سٹوڈنٹ قرض ہے جو وہ کبھی ادا نہیں کر سکتے، یہ پورا ایک گھوٹالہ ہے۔ بعد ازاں انہوں نے کینیڈا جانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

ایک ایسے شخص کی حیثیت سے، جس پر امریکہ میں اپنی گریجویٹ تعلیم کا قرض ہے، مجھے ان کے نقطہ نظر پر بحث کرنا مشکل لگا۔

سنگاپور جو کئی حوالوں، جیسا کہ وہ گنجان آباد ہے، آزادی اظہار پر پابندیاں ہیں اور وہاں کی حکومت موثر انداز میں بے رحم ہے، سے امریکہ کے بالکل برعکس ایک ملک ہے۔ وہاں بہت سے متوسط طبقے کے پیشہ ور لوگ جانتے ہیں کہ وہ امریکہ منتقل ہو کر اپنے کیریئر میں تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے باوجود میں نے جن نوجوان شہری پیشہ وروں سے بات کی، ان میں امریکہ آنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ امریکی ہیلتھ کیئر کے نظام اور تشدد کے کلچر کی وجہ سے حتیٰ کہ وہ لوگ بھی وہاں نہیں جانا چاہتے جن کے بچے نہیں یا وہ پیدا کرنا نہیں چاہتے۔

ایک جوڑے نے، جس سے میں نے بات کی، مجھے بتایا کہ وہ ایمسٹرڈیم منتقل ہو رہے ہیں (امریکی فرموں میں کام کرنے کے لیے) جس کو انہوں نے امریکہ سے کہیں زیادہ مہذب قرار دیا۔

برازیل، جہاں ساؤ پاؤلو شہر کے گرد مسلح ڈکیتیوں سے بچنے کے لیے مجھے بکتر بند گاڑی میں سفر کرنا پڑا، وہاں مقامی لوگوں نے بتایا کہ امریکہ میں بڑے پیمانے پر فائرنگ ان کے لیے باعث صدمہ اور ناقابل یقین ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ برازیل میں حتیٰ کہ جرائم پیشہ گروہ بھی جانتے ہیں کہ بچوں کو گولی نہیں مارنی۔

لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ برازیل میں جرائم کی مالی امداد کے لیے آپ کو آپ کس طرح لوٹا جا سکتا ہے، لیکن آپ شکار بننے سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات کر سکتے ہیں جیسا کہ بکتر بند کار کا استعمال کرنا یا رولیکس گھڑی پہن کر گھر سے باہر نہ نکلنا۔

اس کے برعکس ان کا کہنا تھا کہ امریکی تشدد سمجھ سے بالا ہے۔ بڑے پیمانے پر فائرنگ کے خلاف کوئی روک تھام کے اقدامات نہیں کیے جا سکتے جو کسی بھی وقت کنسرٹ، گروسری سٹورز، سکول، گرجا گھروں، عبادت خانوں، مالز، پارکوں یا کسی بھی عوامی جگہ پر ہو سکتی ہے۔

ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ برازیل میں مجرموں کے بھی معیارات ہیں جو امریکی رپبلکن سیاست دانوں کے نہیں ہیں۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکی ثقافت اب بھی وسیع، طاقتور اور انتہائی مقبول ہے۔ امریکی برانڈز، کھیلوں کی ٹیمیں، فیشن برانڈز، فلمی کردار دنیا بھر میں رائج ہیں۔ دوسرے لفظوں میں غیر امریکیوں میں امریکہ کی تعریف کرنے کا رحجان پہلے ہی موجود ہے۔

اس اعتبار سے یہ مزید افسوس ناک بات ہے کہ وہ بے لگام سرمایہ دارانہ نظام اور خبطی سیاست دانوں کے واضح اثرات کی وجہ سے امریکیوں پر ترس کھاتے ہیں۔

امریکہ اپنی چمک دمک کھو چکا ہے۔ ہوسکتا ہے ماگا (میک امریکہ گریٹ اگین) کے شوقین افراد کو اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ باقی دنیا کیا سوچتی ہے (یا جان لیں کہ ہماری سرحدوں سے باہر ایک دنیا ہے) لیکن یہ ظاہر ہے کہ امریکہ اب اچھے تعلیم یافتہ اور خواہش مند تارکین وطن کی پسندیدہ منزل نہیں رہا۔

 اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اب یہ رہنے کے لیے ایک پرکشش جگہ نہیں ہے۔ یقیناً آپ یہاں کسی اور جگہ سے زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک بڑی ذاتی قیمت چکانی پڑتی ہے اور لگ رہا ہے کہ باقی دنیا یہ نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ امریکی زندگی اس قیمت کے قابل نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا