’خاص سکون‘ فراہم کرنے والے ہنی مون ہوٹل اور وائٹ ہاؤس کی اہمیت؟

کالام کے ہنی مون ہوٹل کا بڑا حصہ سیلابی ریلوں کی نذر ہو گیا جبکہ بحرین میں دریائے سوات کے کنارے واقع وائٹ ہاؤس بھی بہہ گیا۔

سوات میں 26 اگست 2022 کو سیلابی ریلے کی نذر ہونے والے دو ہوٹلوں میں ایک کے منہدم ہونے کا منظر (تصویر: سول آئیز ٹوئٹر)

پاکستان بھر میں جاری بارشوں اور سیلابی ریلوں نے اکثر علاقوں میں تباہی مچائی ہوئی ہے اور شمالی علاقوں میں کئی کئی منزلہ عمارتوں کے زمین سے اکھڑنے اور پانی میں بہہ جانے کی ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔

عمارتوں کے منہدم یا سیلابی ریلوں میں بہہ جانے کے زیادہ واقعات پہاڑی علاقوں خصوصا سوات اور دیر کے مختلف حصوں میں پیش آئے ہیں جہاں چوٹیوں پر سے بہتا پانی کئی سو کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے نیچے کا سفر کرتا ہے۔

اس تیز رفتار سے بہتا پانی اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔

پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہلایا جانے والا سوات اپنے قدرتی حسن اور موسم کی وجہ سے نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کے لیے ایک بڑی کشش ہے۔

ضلع سوات صوبہ خیبر پختونخوا کے مالاکنڈ ریجن (یا ڈویژن) کا حصہ ہے اور کئی وادیوں پر مشتمل ہے جن میں وادی سوات اور وادی کالام زیادہ معروف ہیں۔

ضلع سوات میں بحرین، مدین، کالام، مالم جبہ، اوشو اور ماہوڈھنڈ جیسے علاقے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔

ہر سال لاکھوں سیاحوں کی آمد کی وجہ سے سوات کے مختلف علاقوں میں چھوٹے بڑے ہزاروں ہوٹل اور ریستوران موجود ہیں، جن کی اکثریت اس میں سے سانپ کی طرح بل کھا کر گزرنے والے دریائے سوات کے کنارے تعمیر کیے گئے ہیں۔

ہنی مون ہوٹل

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق ویڈیوز میں سے ایک سوات کے علاقے کالام میں ہنی مون ہوٹل کی ہے، جسے گذشتہ کئی گھنٹوں کے دوران لاکھوں صارفین نے دیکھا اور شیئر کیا ہے۔

دریائے سوات کے کنارے واقع ہنی مون ہوٹل کے منہدم ہونے کے مناظر نہایت دل دہلا دینے والے ہیں جن میں پہلے خوش رنگ عمارت کے سامنے تیز سیلابی ریلوں کو دیکھا جا سکتا ہے اور یکا یک اس کی کھڑکیوں میں لگے شیشے ٹوٹ کر گرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کے چند سیکنڈ کے بعد اس کا ایک حصہ بیٹھنے لگتا ہے۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہوٹل کی عمارت کے ایک بڑا حصے کے ٹکڑے چنگھاڑتے ہوئے پانیوں میں تیرتے نظر آرہے ہوتے ہیں، اور پھر سیلابی ریلے میں ڈوب کر غائب ہو جاتے ہیں۔

کالام سوات میں واقع ایک وادی ہے، جو صوبہ خیبر پختون خوا کے تیسرے بڑے شہر مینگورہ کے شمالی میں 99 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کے کنارے واقع ہے۔

کالام بازار مینگورہ-کالام روڈ پر دریائے سوات کے کنارے واقع ہے اور یہاں موجود عمارتیں، جن میں اکثریت ہوٹلوں اور ریستورانوں کی ہے، بہتے پانی کے کچے کناروں کے انتہائی قریب تعمیر کی گئی ہیں۔

گذشتہ کئی روز سے کالام بازار میں موجود صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح محمد زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم ہوٹل کے استقبالیے كے سامنے سڑک پر موجود تھے اور ہماری آنکھوں کے سامنے اس کی عمارت جیسے کاغذ کی طرح پھٹ رہی تھی، بہت خوفناک منظر تھا۔‘

کالام کے رہائشی نصراللہ ملک کے مطابق اس وقع میں ہنی مون ہوٹل کا 40 فیصد حصہ سیلابی ریلے کی نظر ہوا جبکہ مینگورہ میں نجی ٹی وی چینل ’جیو نوز‘ کے نمائندے محبوب علی کا کہنا تھا کہ تباہ ہونے والا حصہ عمارت کا کم از کم 60 فیصد تھا۔

ہنی مون ہوٹل، جس کا پورا نام ہنی مون ایٹ نائن ٹین ہوٹل ہے، پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت ہمایوں شینواری کی ملکیت ہے۔

دو ہزار کی دہائی کے شروع میں قائم ہونے والے ہنی مون ہوٹل کو 2010 میں کی بارشوں اور سیلاب میں بھی نقصان پہنچا تھا جس کے بعد اسے 14-2013 میں مرمت و تزئین و آرائش کے بعد دوبارہ سیاحوں کے لیے کھولا گیا تھا۔

ہنی مون ہوٹل میں مجموعی طور پر 160 کمرے تھے اور اس کی عمارت کو شوخ رنگوں کے امتزاج سے خوبصورت بنایا گیا تھا، جہاں مہمانوں کی پاکستانی کھانوں کے علاوہ چینی پکوان سے بھی تواضع کی جاتی ہے۔

ہوٹل کی عمارت کی تباہی سے متعلق ویڈیو کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک دوسری فوٹیج بھی موجود ہے، جس میں ہنی مون ہوٹل کی کھڑکیوں میں سے سامان پارکنگ میں گراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

ہنی مون میں ٹھہرے ہوئے ایک سیاح کے مطابق دریائے سوات میں پانی زیادہ ہونے کے بعد عملے سے کمرے خالی کروا دیے تھے اور سامان نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔

معروف فرانسیسی ٹریول گائیڈ پیٹٹ فیوٹے کی ویب سائٹ پر کالام کے ہنی مون کا تعارف کچھ اس طرح کیا گیا ہے: ’ہوٹل ایک بہت بڑی، انتہائی رنگ برنگ عمارت ہے، جو (مہمانوں کو) ایک خاص سکون فراہم کرتا ہے۔ کمرے کشادہ ہیں اور سب میں ایک نجی بالکونی ہے (سوائے گراؤنڈ فلور کے)۔ ان کمروں میں سے کچھ، ڈوپلیکس میں، جن میں بیک وقت چھ افراد تک رہائش کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ صاف اور روشن ہیں اور ان سے دریا کا براہ راست نظارہ ممکن ہے۔ ہوٹل میں ایک ریستوران ہے اور اس کی بالکونی میں پاکستانی اور چینی خصوصیات کا لطف اٹھایا جاتا ہے۔‘

تاہم ٹریول گائید ہوٹل میں ہوٹل کی عمارت کے بیرونی (دریائے سوات کی طرف کے) رنگین حصے میں رنگوں کے انتخاب پر تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس سے علاقے کا پینورامک ویو خراب نظر آتا ہے۔

کالام بازار میں اکثر ہوٹل ماحول کی وہاں کے قدرتی ماحول کے برعکس تعمیر کیے گئے ہیں، جبکہ عمارتوں کے بیرونی حصوں پر رنگوں کا استعمال بھی دیکھنے میں غیر مناسب لگتا ہے۔

کالام اور سوات کے دوسرے حصوں میں سیلابی ریلوں سے عمارتوں کو پہنچنے والے نقصان کی ایک بڑی وجہ ان کا دریا کے انتہائی کناروں پر موجود ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ہنی مون ہوٹل کی انتظامیہ یا مالکان پر بھی تنقید کی گئی۔

مینگورہ سے تعلق رکھنے والے صحافی شیرین زادہ کے مطابق ہنی مون ہوٹل کے مالک کو عمارت کے منہدم ہونے سے بڑا مالی نقصان ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کالام اور سوات کے کئی دوسرے حصوں میں پاکستان کے دوسرے صوبوں اور علاقوں سے آنے والے سینکڑوں سیاح اب بھی موجود ہیں، جو موسم کی بہتری اور سڑکوں کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

جن ہوٹلوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے ان میں مقیم سیاح دوسری جگہوں ہر منتقل ہو گئے ہیں۔

سیاح محمد زبیر نے سوات کے لوگوں کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بارشوں کی تباہی کے بعد سے کالام میں محفوظ رہ جانے والے ہوٹلوں کی انتظامیہ نے مہمانوں سے کرایہ لینا بند کر دیا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’اس وقت آپ کالام میں کسی بھی ہوٹل میں چلے جائیں اور کمرہ پکڑ لیں، آپ سے کوئی پیسے نہیں مانگے گا، بلکہ آپ کو کھانا اور بچوں کے لیے دودھ بھی فری میں ملے گا۔‘

وائٹ ہاوس

ہنی مون ہوٹل کی عمارت کے انہدام کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک سفید رنگ کی بلڈنگ کا پانی برد ہونے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی، جس میں دو منزلہ عمارت لمحوں میں سیلابی موجوں کی نذر ہو جاتی ہے۔

مینگورہ کے صحافی محبوب علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس ویڈیو میں تباہ ہونے والی عمارت ایک گھر ہے، جو سوات کے علاقے بحرین میں دریائے سوات کے کنارے واقع تھی۔

بحرین مینگورہ کے شمال میں دریائے سوات کے کنارے واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے، جو قدرتی نظاروں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث بنتا ہے۔

محبوب علی کے مطابق عمارت کا رنگ سفید ہونے کے باعث گھر کے مالک نے اس کا نام 'وائٹ ہاوس' رکھا ہوا تھا، اور اسی نام سے علاقے کے لوگ بھی اس گھر کو پکارتے تھے۔

امریکی صدر کا دفتر اور رہائش گاہ جس عمارت مٰن واقع ہے اسے بھی وائٹ ہاوس کہا جاتا ہے، جبکہ مینگورہ کے شمال میں مرغزار کے مقام پر ریاست سوات کے پہلے بادشاہ میاں عبدالودود نے 1940 میں تعمیر کیا تھا۔

وائٹ پیلس، جو والی سوات کا گرمیوں کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا، میں سفید ماربل استعمال کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کا نام سفید محل پڑ گیا۔

وائٹ پیلیس، جو اس وقت ہوٹل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، کو مختلف ادوار میں سواتی پیلس اور موتی پیلس کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات