سیلاب اور بارشیں: خیموں کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ

دکانداروں کا کہنا ہے کہ بڑا خیمہ جس کا سائز 15 بائے 18 ہے اس کی قیمت پانچ ہزار سے بڑھ کر ساڑھے 10 ہزار، 11 ہزار، 13 ہزار اور کہیں 15 ہزار روپے بھی ہو گئی ہے۔

تونسہ کے مقام سیلات کی صوتحال جہاں لوگ سیلابی پانی سے گزر کر گھروں کو جانے کی کوشش کر رہے ہیں (تصویر: فیض عبدالرحمٰن)

پاکستان میں سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رضا کار کا کہنا ہے کہ خیموں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

فیض عبدالرحمٰن ایک غیر سرکاری تنظیم گو گرین ویلفیئر سوسائٹی کے منصوبے ’پانچویں پاس‘ کے تونسہ میں واقع سکول میں رضاکارانہ طور پر پڑھاتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے یہاں ایک خیموں والے سے بات کی تو معلوم ہوا کہ خیموں کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ہم نے 300 خیموں کا آرڈر دیا ہے۔ ہمیں 15 بائے 18 کا ایک خیمہ 13 ہزار روپے میں ملا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دکاندار سے جب پوچھا کہ اتنا مہنگا کیوں ہے تو ان کا یہی کہنا تھا کہ خیموں کی طلب زیادہ ہے اس لیے خیمے بنانے والے ہی مہنگا دے رہے ہیں۔

فیض کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ کی بستی ہیرو شرقی سے ہے۔ سیلاب نے تونسہ میں بھی اپنی تباہ کاری ایسی مچائی کہ بستی کی بستیاں تباہ ہوگئیں۔

فیض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کی بستی سے ملحقہ بیٹ پلوان صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے اور وہاں ایک بھی گھر نہیں بچا۔‘

فیض الرحمٰن کے مطابق ’ایک طرف سے دریائے سندھ میں پانی کابہاؤ تیز ہوا جس کی وجہ سے پانی حد سے زیادہ آیا اور اس پانی نے کئی بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دوسری طرف کوہ سلیمان کے پہاڑوں پر تیز بارشوں کی وجہ سے ایک پانی کا ایسا ریلہ آیا جس نے تباہی مچا دی تو وسط میں واقع تونسہ پانی کی لپیٹ میں آگیا۔‘

فیض نے مزید بتایا: ’میں گو گرین کے لیے رضا کارانہ طور پر اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر اس بستی میں اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کاروائیوں میں مصروف ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ گو گرین ویلفئیر کی رہنما عاصمہ فرہاد کو جب بتایا تو انہوں نے امدادی سامان بھیجا۔ اس وقت کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو سر چھپانے کے لیے خیموں کی ضرورت ہے۔

انہی خیموں کی قیمتیں جاننے کے لیے ہم نے خیمے بیچنے والے ایک دکاندار محمد بشیر سے بھی رابطہ کیا۔

بشیر کا بھی وہی موقف تھا جو فیض کو دکاندار نے بتایا تھا کہ طلب زیادہ ہے اس لیے خیمے بنانے والوں نے قیمتیں بڑھا دی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بشیر نے بتایا کہ ’زیادہ تر پیرا شوٹ کے خیمے جا رہے ہیں کیوں کہ وہ واٹر پروف ہوتے ہیں۔ ان میں بھی دو سائز ہیں ایک 12 بائے 15 کا اور ایک 15 بائے 18 کا۔‘

بشیر کا کہنا ہے کہ ’12 بائے 15 کا خیمہ عام دنوں میں 35 سو سے چار ہزار روپے کا ملتا تھا جو اس وقت ساڑھے سات ہزار یا اس سے بھی زیادہ کا ملے گا۔ اس سے بڑا خیمہ جس کا سائز 15 بائے 18 ہے اس کی قیمت پانچ ہزار سے بڑھ کر ساڑھے 10 ہزار، 11 ہزار، 13 ہزار اور کہیں 15 ہزار روپے بھی ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی ان خیموں کے ساتھ بانس وہ نہیں دے رہے کیوں کہ بانس کی قیمت بھی آٹھ، نو سو روپے سے بڑھ کر تین سے ساڑھے تین ہزار روپے ہو گئی ہے۔

بشیر کا کہنا تھا کہ ایک دکاندار ہونے کے ناطے انہیں افسوس ہے کہ مشکل گھڑی میں انسانیت کی خدمت کی بجائے یہاں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی سوچی جاتی ہے لیکن وہ اس میں بے بس ہیں کیوں کہ وہ جہاں سے مال لا رہے ہیں وہاں سے ہی انہیں مہنگا مل رہا ہے۔

لاہور کی نولکھا مارکیٹ میں خیموں کا کام کرنے والے شاہزیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ترپال کا 12 بائے 15 کا خیمہ اس وقت سات سے 10 ہزار روپے میں مل رہا ہے جو کہ ڈبل قیمت ہے۔ مختلف دکانوں پر مختلف قیمتیں ہیں جبکہ اگلے تین ہفتوں تک ان کے آرڈر بک ہیں اس سے پہلے وہ نیا آرڈر نہیں لے سکتے کیوں کہ خیموں کے کپڑے کی ترسیل بند ہو گئی ہے۔‘

ابوزر مادھو جو کہ پرفارمنگ آرٹس کے استاد ہیں بھی اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر رضاکارانہ طور پر سیلاب زدگان کے لیے کچھ امدادی سامان اکٹھا کر رہے ہیں اور منگل کو وہ ایک ٹرک لے کر پنجاب کے علاقوں میں جائیں گے۔

انہیں بھی خیموں کے حوالے سے اسی شکایت کا سامنا ہوا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ترپال کا بنا بڑا خیمہ جو 10 سے 12 لوگوں کے لیے کافی ہوتا ہے وہ پہلے 15 ہزار روپے میں ملتا تھا لیکن اب وہی خیمہ 20 ہزار روپے میں ملا ہے۔

گو گرین ویلفیئر سوسائٹی کی رہنما عاصمہ فرہاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پیرا شوٹ والے خیموں کی لائف بہت زیادہ نہیں ہوتی اور جب یہ مختلف خاندانوں کو دے دیے جاتے ہیں تو پھر واپس نہیں لیے جاتے۔ جب یہ لوگ واپس معمول کی زندگی میں جائیں گے اور اپنے اپنے گھروں میں چلے جائیں گے تو یہ خیمے بعض اوقات جانوروں کے لیے شیڈ کے طور پر استعمال ہو جاتے ہیں یا کسی پردے وغیرہ کے طور پر۔‘

وزیر اعلیٰ پنجاب کے میڈیا کوارڈینیٹر اظہر ماشوانی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس وقت تو پورے پاکستان میں ہی مشکل کی گھڑی ہے اور جب بھی ملک میں ایسی کوئی آفت آتی ہے تو ہماری عوام سب سے پہلے منافع خوری کی طرف جاتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ریگولیٹری اتھارٹی ضلعی حکومت کی ہوتی ہے ان کو بتایا جاسکتا ہے کہ تاکہ وہ اس کو چیک کرسکیں۔ باقی ایسا نہیں ہو سکتا کہ تونسہ کی ان بستیوں میں کوئی پہنچا نہ ہو۔ ساری بستیوں میں ہم رابطے میں ہیں۔‘

اظہر ماشوانی  کا کہنا تھا کہ دراصل تونسہ تھوڑا مختلف ہے یہاں فلیش فلڈ آتا  ہے اور پھر نکل جاتا ہے۔ یہاں کے میدانی علاقوں میں پانی کھڑا ہے لیکن اوپر والے علاقوں میں تو سڑکیں بھی ٹھیک ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ زیادہ مسئلہ راجن پور میں ہے کیوں کہ وہ میدانی علاقہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان