سیلاب کی تباہ کاریاں: کیا پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر پائے گا؟

موجودہ حکومت اس قرض کی منظوری کے بعد بہت خوش اور بااعتماد دکھائی دے رہی ہے، لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے کچھ کڑی شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔

سیلاب کے نتیجے میں بے گھر ہونے والی ایک خاتون 30 اگست 2022 کو صوبہ سندھ کے شہر شکار پور میں سڑک کنارے لگائے گئے خیمے کے باہر کھانا بنا رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو قرض کی ادائیگی سے متعلق پروگرام کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد رواں ہفتے پاکستان کو ایک ارب 17 کروڑ ڈالرز منتقل ہو جائیں گے۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پروگرام کی منظوری کی تصدیق کی۔

موجودہ حکومت اس قرض کی منظوری کے بعد بہت خوش اور بااعتماد دکھائی دے رہی ہے، لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے اس قرض کو دینے کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس پروگرام میں جون 2023 تک توسیع کی منظوری دی گئی ہے اور پاکستان کے لیے قرض پروگرام کا حجم چھ ارب ڈالر سے بڑھا کر ساڑھے چھ ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔

بورڈ کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالرز کی قسط منظور کر لی گئی ہے۔ اس قرض کے لیے آئی ایم ایف نے کچھ شرائط بھی رکھی ہیں جیسے کہ:

  • پاکستان کی معیشت کو چیلنجز درپیش ہیں، پاکستان کو توانائی کے نقصانات کم کرنا ہوں گے اور ٹیکس آمدن بڑھانا ہوگی۔
  • پاکستان کو مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ یقینی بنانا ہو گا، کاروبار کرنے کا ماحول بہتر بنا کر پائیدار ترقی کو یقینی بنایا جا ئے۔
  • مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافہ بہتر اقدام ہوگا۔
  • پاکستان کو سماجی شعبے میں تحفظ اور حکومتی ملکیتی اداروں کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے کہ مالی سال 2022 کی پالیسی اور یوکرین جنگ کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر اور روپے پر بہت دباؤ آیا، اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان نے اہم اقدامات اٹھائے ہیں جب کہ مالی سال 2023 کے منظور شدہ بجٹ پر ثابت قدمی کے ساتھ عملدرآمد پاکستان کی فوری ترجیح ہونی چاہیے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حالات، جب سیلاب نے ہر جگہ تباہی مچا رکھی ہے، ملک کے کئی حصوں میں انفراسٹرکچر تباہ و برباد ہو گیا ہے، کسانوں کی فصلیں پانی کی نذر ہوگئی ہیں اور اس سب کو ٹھیک کرنے کے لیے حکومتی خزانے پر آئندہ آنے والے دنوں میں بہت زیادہ بوجھ آنے والا ہے تو کیا ایسے میں حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟

ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے حکومت جو اقدامات اٹھائے گی، اس کا اثر سیلاب متاثرین پر کیا ہوگا؟ یہی جاننے کے لیے ہم نے ماہر معیشت ڈاکٹر فہد علی سے رابطہ کیا۔

ڈاکٹر فہد علی پی ایچ ڈی اکنامکس ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈین فیکلٹی آف ہیومینیٹیرینز اینڈ سوشل سائنسز کام کر رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فہد علی نے آئی ایم ایف کے قرض کے حوالے سے کہا کہ ’پاکستانی سیاست گذشتہ کئی ماہ سے ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے اور اس غیر یقینی اور عدم استحکام کے ہماری معیشیت پر گہرے منفی اثرات پڑے ہیں۔‘

’اس کا اثر ہم افراط زر میں تیزی، روپے کی قدر میں کمی اور سب سے بڑھ کر غیر ملکی قرضوں میں ڈیفالٹ کر جانے کے خطرے کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کے بعد یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا ڈیفالٹ کر جانے کا خطرہ موجود نہیں رہا، لیکن پاکستانی معیشت ابھی مشکلات سے نہیں نکلی۔‘

ڈاکٹر فہد نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا یہ قرض بہت کڑی شرائط پر مبنی ہے۔ اس پروگرام میں واپس جانے کے لیے موجودہ حکومت کو بہت سے ایسے فیصلے کرنے پڑے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

’اس سلسلے کی پہلی کڑی شرط یہ ہے کہ حکومت اپنے خرچوں میں کمی لائے گی۔ آئی ایم ایف توقع کر رہی ہے کہ حکومت پچھلے سال کے مقابلے میں اپنا کل خرچ 19 اعشاریہ ایک فیصد (As% of GDP) سے کم کر کے 17 عشاریہ ایک فیصد تک لے آئے۔ دو فیصد کی یہ کمی تقریباً 1400 ارب روپے بنتی ہے۔ اپنے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اس شرط کو پورا کرنا بہت ضروری ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف یہ بھی چاہتا ہے کہ حکومت اپنے کل قرضوں میں خاطر خواہ کمی لائے۔

ادارے کے تخمینے کے مطابق ان کو 74 عشاریہ چھ فیصد (As% of GDP) سے کم کر کے 68 عشاریہ دو فیصد تک لایا جائے۔

’آئی ایم ایف یہ بھی توقع کر رہا ہے کہ حکومت پاکستان قرضوں کی ادائیگی کی مد میں دی جانے والی رقم کو نکال کر اپنے خرچوں کو اپنی آمدنی سے تقریباً 150 ارب روپے کم رکھے گی۔‘

ڈاکٹر فہد نے بتایا: ’ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس بجٹ میں حکومت کو یہ وعدہ دفاعی بجٹ میں تقریباً 75 ارب کی کٹوتی کے بعد ہی کرنا پڑا۔ یہ تمام شرائط کسی بھی حکومت کے لیے بھاری ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی بات ہے تو اس سے ہونے والے نقصان کے پیش نظر آئی ایم ایف کی ان شرایط کو پورا کرنا حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا۔

’میں ذاتی طور پر حکومت کو مالیاتی خساروں کے اہداف حاصل کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے قرضوں میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آئے۔‘

فہد علی کا کہنا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کو نہ صرف متاثرین کی بحالی کے لیے پیسے چاہیے ہوں گے بلکہ متاثرہ علاقوں میں فوری بحالی بھی ضروری ہوگی۔

’تقریباً 80 فیصد پاکستان سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ اس میں سندھ کا ایک بڑا حصہ شامل ہے جو ہماری زرعی پیداوار کے لیے اہم ہے۔ اس علاقے کی بحالی نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ متاثرہ خاندانوں کا روزگار جلد از جلد بحال ہو سکے بلکہ اس لیے بھی کہ ربیع کے موسم میں بوائی کو یقینی بنایا جاسکے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق سندھ کے اندر کاشت کی جانے والی کپاس، چاول اور گنے کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو چکا ہے۔ اس نقصان کا اثر ہماری برآمدات اور درآمدات پر پڑے گا۔

’وزیر خزانہ کے اپنے بیان کے مطابق ہماری معیشت کو تقریباً 10 ارب کا نقصان ہو چکا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اس نقصان کو خود پورا کرسکے۔ غیر ملکی امداد اس امر میں بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ اس نقصان کو اگلے ایک سال میں پورا کیا جاسکے۔ اس میں حکومت کو اگلے چند سال بھی لگ سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین چوہدری انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’کپاس کی کھڑی فصل سندھ، پنجاب اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں سیلاب کی وجہ سے تباہ ہو گئی لیکن باقی علاقوں میں بھی بارشوں کی وجہ سے فصل برباد ہو گئی۔‘

’اس کے علاوہ بھی دیگر فصلیں برباد ہوئیں جب کہ آئندہ آنے والے سیزن کی فصلیں کسان بو نہیں پائیں گے۔ لائیو سٹاک کا جو نقصان ہوا وہ بھی دراصل کسانوں کا ہی نقصان ہے کیونکہ ہر کسان نے گھر میں کوئی نہ کوئی لائیو سٹاک گائے بھینس بکری وغیرہ رکھی ہوتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ کسی ریلیف پیکج کا اعلان کرے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔

’کسانوں نے جو فصلیں کاشت کرتے ہوئے بجلی خرچ کی اس کے نتیجے میں جو بل آئیں گے اس میں فیول ایڈجسٹمنٹ پرائس بہت زیادہ رکھی ہوئی ہے۔‘

چوہدری انور کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کے نتیجے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور انہیں نہیں لگتا کہ اگلے تین چار سال تک حکومت کسی قسم کا ریلیف دے سکتی ہے۔

’ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ شاید بین الاقوامی برادری مدد کرے، جس کے بعد حکومت کسانوں کو ریلیف دے۔ ‘

چوہدری انور کے مطابق ابھی مزید بارشیں ہونی ہیں اور دریائے سندھ کا پانی رحیم یار خان تک پہنچے گا اور وہاں سے مزید آگے جا کر جھنگ کو بھی متاثر کرے گا، جس کا مطلب ہے کہ جو فصلیں بچی ہیں وہ بھی تباہ ہو جائیں گی۔

’اس سیلاب کے بعد تو بہت سی جگہوں پر فصلیں کاشت ہی نہیں ہو سکیں گی، اس لیے کسانوں کا حال تو خراب ہوا مستقبل بھی تاریک دکھائی دے رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم آئندہ آنے والے دنوں میں نقصان کا تخمینہ لگائیں گے اور پھر ہم اپنے لیے ریلیف کے مطالبات لے کر حکومت کے پاس جائیں گے۔

سیلاب اور آئی ایم ایف کی شرائط 

کامرس اینڈ انڈسٹری پر وزیراعظم شہباز شریف کے کوآرڈینیٹر اور اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی پاکستان کے رکن رانا احسن افضل خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ سیلاب کے بعد معاشی نقطہ نظر بدل جائے گا۔

’نقصان، امداد، موقع کی قیمت ضائع، تعمیر نو اور بحالی کا تخمینہ ایک جاری عمل ہے جہاں اس کا تخمینہ 10 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیوں، دو طرفہ اور کثیرالجہتی اداروں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔

’ہم آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں اور ترقی پذیر صورت حال کے مطابق بات چیت کریں گے، یہ مشاورتی عمل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کا جو بھی نتیجہ نکلے حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ توازن قائم کریں اور مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ کے نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہوئے اور مالیاتی اداروں کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے عوام کے لیے زیادہ سے زیادہ ریلیف حاصل کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت