توہینِ عدالت: ’عمران خان سات دن میں دوبارہ جواب جمع کروائیں‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں عمران خان کو سات دن کے اندر ’سوچ سمجھ کر‘ تحریری جواب جمع کروانے کا ایک اور موقع دے دیا ہے۔

 (انڈپینڈنٹ اردو)عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کیس میں عمران خان کو سات روز میں ’سوچ سمجھ کر‘ تحریری جواب جمع کروانے کا ایک اور موقع دے دیا ہے، جس کے بعد سماعت آٹھ ستمبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

تحریری حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش ہے۔ عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کے وکیل نے دوبارہ جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگی ہے اس لیے عمران خان کو جواب جمع کرانے کے لیے سات دن کی مہلت دیتے ہیں۔ عمران خان کا جواب آٹھ ستمبر سے پہلے فریقین کو بھی پہنچایا جائے۔

اس موقعے پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ ’توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی لیکن جمع کرائے گئے جواب کی وجہ سے ایسا نہ ہوا۔‘

عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کا صفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں۔ ’عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔‘

چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ جب تقریر کی گئی تو یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا۔ آپ ریکارڈ دیکھ کر مناسب (proper) جواب جمع کرائیں یا پھر عدالت اس معاملے کو آگے بڑھائے گی۔ عدالت توہین عدالت کی کارروائی کو انتہائی شفاف بنائے گی۔ ’آپ نے جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں۔ آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے جج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے سپریم کورٹ کے جج، اور ماتحت عدلیہ کے ججز کوئی مسٹر ایکس اور وائی نہیں کہ ان کے بارے جو مرضی کہیں۔

35 منٹ کی سماعت کے بعد عدالت نے منیر اے ملک، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے سماعت آٹھ ستمبر تک ملتوی کر دی۔

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ گذشتہ تین سالوں سے اس عدالت نے تشدد کو ایک اہم معاملے کے طور پر اٹھایا ہے۔ سب سے اہم نوعیت کا ٹارچر لاپتہ افراد اور بلوچ طلبہ کے ساتھ حکومت کا رویہ ہے۔ آپ گذشتہ تین برسوں کا عدالتی ریکارڈ اٹھا لیں جو وفاقی کابینہ کو بھجوائے گئے۔ اگر تب حکومت ان معاملات کو سنجیدگی سے لیتی تو آج نہ تو کوئی بلوچ طالب علم اٹھایا جاتا اور نہ ہی لاپتہ افراد کے مسئلے ہوتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے موکل نے پبلک میٹنگ میں اعتراض کیا تھا کہ ’عدالتیں 12 بجے کیوں کھلی تھیں؟ انہوں نے کہا کہ عدالتیں جواب نہیں دے سکتیں لیکن یہ عدالتیں تمام سائلین کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہیں، اور آج تو آپ کے موکل عدالت میں موجود ہیں، ان کو ابھی ہم بتا سکتے ہیں۔ کاش نچلی عدالت کے جج کو بھی عزت و تکریم سے مخاطب کیا گیا ہوتا۔ کوئی شخص اس عدالت کے جج پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، یہ عدالت صرف قانون کو دیکھے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ عدالت نے کبھی اس بات کی پروا نہیں کہ انہیں کیا کہا جاتا ہے۔ جس پارٹی کو قانون کے مطابق ریلیف ملتا ہے دوسری پارٹی کے فالوررز سوشل میڈیا پر اس جج کے خلاف پراپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔ میری ایک جج کے ساتھ تصویر کو بھی متنازع بنا کر بھی پیش کیا گیا۔

اس موقعے پر جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ ’توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگر اس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں۔ اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔ انہوں نے کہا قوم منقسم ہے، معاشرے میں بہت زیادہ پولرائزیشن ہے۔

’غلطی ہو گئی ہے تو اس کا اظہار کر لیں‘

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری معافی سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے لیکن وہ عام آدمی کی عدالت ہے۔ میں یہ توقع کر رہا ہوں کہ اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ غلطی ہو گئی ہے تو اس بات کا اظہار کر لیں، لیکن آپ کے جواب میں ایسی کوئی بات نہیں۔ جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی ہوئی کوئی بات واپس نہیں ہوتی۔ ایک سیاسی لیڈر وہ بھی عمران خان، ان کا ہر لفظ بہت محتاط ہونا چاہیے کیونکہ ان کے فالوررز ہیں۔

عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے 20 اگست کی شب دوران تقریر ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری، آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو نام لے کر دھمکایا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق ریمارکس پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیا تھا اور 31 اگست کے لیے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

’اتنی پولیس پہلے نہیں دیکھی‘

چئیرمین تحریک انصاف عمران خان پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف سخت سکیورٹی تعینات کی گئی۔ خاردار تاریں اور واک تھرو گیٹس بھی لگائے گئے۔ توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس کورٹ روم ون میں ہوئی جو باقی عدالتی کمروں سے قدرے فاصلے اور الگ تھلگ ہے۔ چیف جسٹس کی عدالت کے اطراف شامیانے لگا کر راستے بند کیے گئے اور ایک طرف سے گزرنے کا راستہ رکھا گیا جہاں سب سے سکیورٹی کارڈز چیک کرنے کے بعد اندر جانے کی اجازت دیجا رہی تھی۔

ٹھیک دو بج کر 30 منٹ پر عمران خان ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس کمرہ عدالت ہاتھ میں تسبیح پکڑے داخل ہوئے۔ دوسری قطار میں رکھی کرسیوں کی جانب وکیل نے اشارہ کیا کہ خان صاحب یہاں آ جائیں۔ عمران خان بیٹھے تو قریب موجود صحافیوں سے کہا کہ ’ان کو خوف کیا ہے؟ میں نے اتنی پولیس پہلے تو کبھی عدالت میں نہیں دیکھی۔‘ انہوں نے کہا، ’میں تو اس پر حیران ہوں۔‘

سماعت سے قبل عمران خان کے وکیل بابر اعوان کمرہ عدالت جا کر بیٹھ گئے۔ اس پر عدالتی عملے نے اعتراض کیا کہ عمران خان کی سکیورٹی ٹیم کی جانب سے جو 15 رکنی وکلا کی ٹیم کے نام دیے گئے ہیں اس میں ان کا نام نہیں ہے۔ فہرست میں نام نہ ہونے کے باعث سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان