گاڑی کی خریداری: آن لائن انسپیکشن رپورٹ کتنی قابل اعتبار؟

پاکستان میں استعمال شدہ گاڑی خریدنے کے لیے آج کل آن لائن گاڑی چیک کروانا بہت عام ہو چکا ہے، لیکن یہ رپورٹ کتنی قابل اعتبار ہے، چیک کرنے والی کمپنیاں آپ کو کیا گارنٹی دیتی ہیں اور کیا اس بنیاد پر گاڑی خرید لینی چاہیے؟ جانیے اس رپورٹ میں

پچھلے دنوں ثاقب نے گاڑی بیچنی تھی۔ انجن بالکل فارغ تھا اور یہ بات ثاقب کے علم میں تھی۔

گاڑی فروخت کرنے کے لیے ایک آن لائن ویب سائٹ پر اشتہار لگایا۔ گاہک نے کہا کہ ’میں آن لائن انسپیکشن کی سروس لوں گا،‘ ثاقب نے کہا: ’ضرور کروائیں۔‘

گاہک نے گاڑی چیک کروانے کے لیے آن لائن ٹیم بُک کی، اگلے دن وہ لوگ آئے، شام کو گاڑی چیک اپ کی اور پوری رپورٹ آ گئی۔

اس رپورٹ میں انجن کو 10 میں سے سات نمبر دیے گئے تھے۔ ثاقب بہت زیادہ رعایت بھی کرتا تو اس نے خود انجن کو چار سے زیادہ نمبر نہیں دینے تھے۔

گاہک کی خوش قسمتی یہ تھی کہ اینڈ پر وہ خود گاڑی چیک کرنے آ گیا، سائلنسر سے دھویں نکلتے دیکھے تو خود ہی معذرت کر لی۔

ثاقب کی گاڑی اوپن مارکیٹ میں انجن خرابی بتا کر بھی آرام سے اتنے کی فروخت ہو گئی، جتنے کی اس نے بیچنی تھی۔

کیا کمپنی انسپیکشن رپورٹ پر خریدی گئی گاڑی کی ذمہ داری لیتی ہے؟

آن لائن انسپیکشن کرنے والے اداروں سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے بات کی تو ان کا موقف تھا کہ ’انسپیکشن رپورٹ صرف اس وقت کی ہوتی ہے جب ادارے کا عملہ گاڑی چیک کرتا ہے۔ آپ انسپیکشن کروائیں، رات کو ایکسیڈنٹ ہو جائے گاڑی کا، یا کوئی خود ہی پرزوں میں گڑبڑ کر لے اور اگلے دن آپ آ جائیں کہ انسپیکشن رپورٹ غلط تھی تو یہ بات ٹھیک نہیں، اسی لیے بنیادی طور پہ اس چیز کا ایک ڈسکلیمر ہر رپورٹ میں شامل ہوتا ہے۔‘

آفیشل ڈسکلیمر ہوتا کیا ہے؟

ڈسکلیمر کسی بھی کمپنی کا وہ قانونی یا پالیسی بیان ہوتا ہے، جس کے مطابق اگر پیش کردہ رپورٹ میں کوئی مسئلہ ہے تو کس حد تک ذمہ داری ان پر ڈالی جا سکتی ہے اور کہاں کہاں وہ بری الذمہ ہیں۔

دنیا بھر میں کہیں بھی کی گئی آن لائن انسپیکشن رپورٹ کے آخر میں دیکھیے تو یہ ڈسکلیمر موجود ہوتا ہے۔

  • رپورٹ کی ذمہ داری صرف اس وقت کی ہے جب کار کا جائزہ لیا گیا۔
  • یہ ایک ایسی رپورٹ ہے جو گاڑی کی صورت حال کا مجموعی جائزہ پیش کرتی ہے۔
  • رپورٹ ان پرزوں کی ذمہ دار نہیں ہے، جو انسپیکشن میں شامل نہیں تھے۔
  • رپورٹ گاڑی کی صورت حال پر کوئی قانونی ثبوت نہیں ہے۔
  • ادارہ اس رپورٹ کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے کا ذمے دار نہیں ہے۔ یہ صرف ایک جائزہ ہے۔

ممکنہ مسائل

ثاقب کے مطابق جو چیز انہیں محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ ’گاڑی کی آن لائن انسپیکشن کے بعد بڑے آرام سے اس کے پرزے تبدیل کیے جا سکتے ہیں، انسپیکشن کے دوران مکینک سے کوئی اہم چیز فراموش ہو سکتی ہے اور بہرحال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسپیکشن کرنے والی ٹیم نئی ہو یا ان معاملات کی باریکیوں میں زیادہ تجربہ کار نہ ہو۔‘

پاکستان میں گاڑی کی آن لائن انسپیکشن کرنے والے ادارے

پاک وہیلز ڈاٹ کام

او ایل ایکس ڈاٹ کام

کار ٹیسٹ ڈاٹ پی کے

گاڑی ڈاٹ پی کے

پاکستان انسپیکشن ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے

کیا باقی دنیا میں بھی کار انسپیکشن ہوتی ہے؟

پاکستان کے قریبی ممالک کی بات کریں تو بھارت، سری لنکا یا دبئی میں آن لائن کار انسپیکشن کی روایت پہلے سے موجود ہے۔

دنیا کے دیگر ممالک میں دیکھا جائے تو امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک میں یہ سروس تقریباً ایک دہائی سے مختلف ادارے مہیا کر رہے ہیں۔

حل کیا ہے؟

آٹو ڈرائیو اسلام آباد کے نام سے کار شوروم کے مالک عمر رانا اس حوالے سے کہتے ہیں: ’میں ذاتی طور پر اپنے کلائنٹس کو آن لائن سروس کا کبھی مشورہ نہیں دیتا۔ انہوں نے کار چیک اپ کی ٹریننگ لی ہوتی ہے جب کہ ایک مکینک ساری عمر گاڑیوں کے انجن کھولنے میں گزارتا ہے۔ روز اس کے ہاتھ اسی کام میں کالے ہوتے ہیں۔‘

’میرا مشورہ گاہک کو یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی قابل اعتبار مکینک کو ساتھ لیں، پانچ سو ہزار روپے اسے دیں، وہ پوری تسلی سے آپ کو گاڑی چیک کر کے بتا دے گا اور اس کا تجربہ بہرحال ان بچوں سے زیادہ ہو گا جنہیں یہ نہیں پتہ کہ انجن کے کس پرزے کو پانا کون سا لگنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب لاہور سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسر محمد یاسر کا کہنا ہے کہ ہمیشہ کوئی بھی گاڑی خریدنے سے پہلے وہ آن لائن کار انسپیکشن ضرور کرواتے ہیں اور انہیں اس بارے میں بہت ہی کم کسی چیز کی شکایت ہوئی ہے۔

بقول محمد یاسر: ’آپ نے 30، 35 لاکھ روپے کی گاڑی لینی ہے تو دو یا تین ہزار روپے میں گاڑی کا پورا ایکسرے کروانے میں حرج ہی کیا ہے؟ گاڑی پر ایک لکیر بھی پڑی ہوئی ہے تو وہ لوگ اس کا بتاتے ہیں۔ انٹیریئر میں کوئی سیٹ پھٹی ہے تو وہ تک لکھا آ جاتا ہے۔‘

’میرے خیال میں آپ کو گھر بیٹھے گاڑی خریدنی ہے تو یہ سروس بیسٹ ہے۔ وہ جو کانسیپٹ بنا ہوا ہے کہ ایک مستری جائے آپ کے ساتھ اور گاڑی کو نیچے سے ٹھوک کر آپ کو بتائے کہ سر جی وجی ہوئی جے، (سر، ایکسیڈنٹ شدہ گاڑی ہے) تو یہ ساری فضول کارروائی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’آج کل تو لوگ زیرو میٹر گاڑی لینے سے پہلے اسے بھی چیک کرواتے ہیں کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو کیوں کہ گاڑی شوروم تک کئی ہاتھوں سے گزر کر پہنچتی ہے۔‘

حتمی نتیجہ

تمام پہلو مدنظر رکھنے کے بعد بہترین حل یہی ہے کہ آپ کو وقت بچانا ہے تو پہلے گاڑی کا آن لائن چیک اپ کروا لیں اور اگر خریدنے کا ارادہ بن جائے تو اطمینان سے کسی مستری کو ساتھ لے جا کر موقعے پر گاڑی چیک کروائیں اور اسے خریدنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیں۔

صرف آن لائن انسپیکشن پر بھروسہ مت کریں اور اس بارے میں اگر مزید جاننا چاہیں تو کورا یا دوسری ویب سائٹس پر بین الاقوامی صارفین کے تحفظات بھی موجود ہیں، جو اسی نوعیت کے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی