افواج پاکستان سے متعلق اشتعال انگیز بیان آزادی اظہار رائے نہیں: عدالت

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے آغاز میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل علی ظفر اور احمد پنسوتا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عمران خان کا کل کا بیان سنا ہے؟

اپریل 2013: اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر سکیورٹی فورسز اپنی ڈیوٹی پر مامور۔ (تصویر: اے ایف پی)

عمران خان کی تقاریر کو براہ راست دکھانے سے روکنے کے پیمرا نوٹیفکشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے اعلی عسکری قیادت سے متعلق بیان پر ریمارکس دیے کہ افواج پاکستان سے متعلق اشتعال انگیز بیان آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے آغاز میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل علی ظفر اور احمد پنسوتا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عمران خان کا کل کا بیان سنا ہے؟ کیا سیاسی لیڈرشپ اس طرح ہوتی ہے۔ گیم آف تھرونز کے لیے ہر چیز کو سٹیک پر لگا دیا جاتا ہے؟ کیا تمام جرنیل محب وطن نہیں ہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا کسی آرمی جنرل کی حب الوطنی پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟  اس طرح کے بیان سے آپ اپنے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ آپ دشمنوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اگر وہ اس قسم کی غیر آئینی بات کریں اور اشتعال پھیلائیں تو یہ آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آرمڈ فورسز ہمارے لئے جان قربان کرتے ہیں۔ اگر کوئی غیر آئینی کام کرتا ہے تو سب تنقید کرتے ہیں۔ اپنی بھی خود احتسابی کریں کہ آپ کرنا کیا چاہ رہے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں جو مرضی کہتے رہیں اور ریگولیٹر ریگولیٹ بھی نہ کرے پھر عدالتوں سے ریلیف کی امید نہ رکھیں یہ عدالت کا استحقاق ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر شہری محب وطن ہے کسی کے پاس یہ سرٹیفکیٹ دینے کا اختیار نہیں۔ آرمڈ فورسز کے بارے میں جو ’شہید‘ ہو رہے ہیں اس طرح کی بات کیسے کی جا سکتی ہے؟ ہر شہری محب وطن ہے اور خاص طور پر فوج کے بارے میں اس طرح کے بیان سے ان کا مورال نیچا کرنا چاہتے ہیں۔ جو کچھ کل کہا گیا کیا اس کو کیا کوئی جسٹیفائی کر سکتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت مسلح افواج عوام کو ریسکیو کر رہے ہیں، کیا کوئی اس بیان کو جسٹیفائی کر سکتا ہے؟ غیر ذمہ دارانہ بیانات دیے گئے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں عدالت ان کو فری لائسنس دے دے؟

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئین کی خلاف ورزی ہو۔ جس سیاسی لیڈر کی فالونگ ہوتی ہے اس کے الزام کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تین کروڑ عوام متاثر ہیں کیا سیاسی لیڈرشپ ایسی ہوتی ہے؟

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل علی ظفر سے کہا کہ آپ کس طرف جارہے ہیں، کیوں آئینی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جو پبلک میں بیان دیا گیا وہ آرٹیکل 19 کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔ اگر اسی طرح غیرذمہ دار بیانات دیں گے تو اس کے نتائج بھی ہوں گے۔ آپ اس طرح کے غیر ذمہ دار بیان دیں گے تو پابندی کیسے نہیں ہو گی۔ یہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ پاکستان فوج محب وطن نہیں؟

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جس قسم کے چیزیں ہورہی ہیں اس پر عدالت سے کسی قسم کی ریلیف کی توقع نہ رکھیں۔

تحریک انصاف کے وکلا اس دوران چیف جسٹس کے ریمارکس سنتے رہے اور بس اتنا کہا کہ عدالت کی بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن ہمارا کیس پیمرا نوٹیفیکیشن کی حد تک ہے۔

واضح رہے کہ اتوار کی شب سابق وزیراعظم عمران خان نے فیصل آباد جلسے میں تقریر کے دوران نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’زرداری اور نواز شریف چاہتے ہیں کہ ایسا آرمی چیف آئے کہ جو یہ اپنا فیورٹ لے کر آئیں۔ یہ اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پیسہ انہوں نے چوری کیا ہوا ہے، یہ ڈرتے ہیں کہ یہاں کوئی تگڑا آرمی چیف آ گیا، ایک محب وطن آرمی چیف آ گیا تو وہ پوچھے گا اِن سے، تو اس ڈر سے یہ بیٹھے ہوئے ہیں کہ دونوں مل کر اپنا آرمی چیف لگائیں۔‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان افواج پاکستان پر کیچڑ اچھال رہے ہیں اور اعلی عسکری قیادت پر الزامات لگا رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے پیمرا کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریگولیٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے عمران خان کی درخواست نمٹا دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست