اوبر کا کمپیوٹر سسٹم ایک مرتبہ پھر ہیک

مذکورہ واقعے سے قبل 2016 میں اوبر ہیکنگ کی ایک بڑی کارروائی کی وجہ سے تنقید کی زد میں آئی جس سے کمپنی کے تقریباً پانچ کروڑ 70 لاکھ ڈرائیوروں اور صارفین کا ڈیٹا لیک ہو گیا تھا۔

17 اکتوبر، 2020 کو ماسکو میں اوبر ٹیکسی (فائل تصویر: اے ایف پی)

آن لائن کیب سروس اوبر اپنے کمپیوٹر سسٹم میں چند مسائل کی تحقیقات کر رہی ہے جس کے بعد کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے اندرونی مواصلاتی اور انجینئرنگ سسٹم کو آف لائن کر دیا ہے۔

کمپنی نے جمعے کو ایک ٹویٹ میں بتایا: ’ہم فی الحال سائبر سکیورٹی سے متعلق ایک واقعے کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس معاملے سے واقف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ہیکر نے کمپنی کے ایک ملازم کے آفیشل سلیک اکاؤنٹ ہیک کرکے ایک پوسٹ میں خود کو متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’اوبر کے ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔‘

کمپنی نے کہا کہ وہ فی الحال ہیکنگ کی شدت کا اندازہ لگا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمپنی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطے میں ہے اور معلومات ملتے ہی ٹوئٹر پر اضافی اپ ڈیٹ پوسٹ کی جائے گی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہیکر نے مبینہ طور پر سائبر سکیورٹی ریسرچرز کو ’ای میل، کلاؤڈ سٹوریج، اور کوڈ ریپوزٹریز‘ کی تصاویر بھیجیں اور ملازمین کے داخلی پیج پر ایک  ’واضح تصویر‘ پوسٹ کی۔

مبینہ طور پر ذمہ داری قبول کرنے والے ہیکر کے ساتھ بات کرنے والے سکیورٹی ماہر سیم کری نے نیویارک ٹائمز کو بتایا: ’لگتا ہے یہ ایک مکمل کمپرومائز تھا۔‘

کمپنی نے اس چھیڑ چھاڑ کی شدت پر تبصرہ کرنے کے لیے دی انڈپینڈنٹ کی درخواست کے جواب میں اپنے ٹوئٹر بیان کا حوالہ دیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کمپنی کو سائبر سکیورٹی کے مسٔلے کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں اوبر ہیکنگ کی ایک بڑی کارروائی کی وجہ سے تنقید کی زد میں آئی جس سے کمپنی کے تقریباً پانچ کروڑ 70 لاکھ ڈرائیوروں اور صارفین کا ڈیٹا لیک ہو گیا تھا۔

اوبر کے مالک دارا خسروشاہی نے کہا تھا کہ اس واقعے میں دنیا بھر میں اوبر صارفین کے نام اور فون نمبرز جیسی ذاتی معلومات اور تقریباً چھ لاکھ ڈرائیوروں کے نام اور لائسنس نمبر چوری کر لیے گئے تھے۔

اس میں صرف برطانیہ کے تقریباً 82 ہزار ڈرائیوروں کا ریکارڈ شامل تھا۔

کمپنی نے اس واقعے کو 2017 تک چھپائے رکھا اور چوری شدہ ڈیٹا کو جاری نہ کرنے کے لیے عوض ہیکرز کو تاوان ادا کیا تھا۔

کمپنی کے بانی ٹریوس کالانک کو زبردستی بے دخل کرنے کے بعد خسروشاہی نے کہا تھا: ’ہم کاروبار کرنے کا طریقہ بدل رہے ہیں۔‘

2016 کے واقعے کے بعد اوبر پر برطانیہ کے انفارمیشن کمشنر آفس کی جانب سے تین لاکھ 85 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

انفارمیشن کمشنر آفس نے کمپنی کو برطانیہ کے ڈیٹا پروٹیکشن قانون کی ’سنگین خلاف ورزی‘ اور ان صارفین اور ڈرائیوروں کو ’مکمل نظر انداز کرنے‘ کا مجرم ٹھہرایا جن کا ڈیٹا چوری کیا گیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی