’ کیمرا کنگ بننا چاہتا ہوں‘: امریکہ میں اوبر چلاتے افغان شہری کا خواب

نو سال افغانستان میں امریکیوں کے ساتھ بحیثیت کیمرا مین کام کرنے والے صمیم زلمی امریکہ تو منتقل ہوگئے مگر اپنے پیشے کا خواب اب بھی ترک نہیں کیا۔

امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم صمیم زلمی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ جس ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتے ہیں، اس کی دیواریں ان کے آبائی ملک افغانستان کے مناظر سے سجی ہوئی ہیں۔

افغانستان میں نو سال نیٹو اور یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کرنے کے بعد 35 سالہ صمیم زلمی تین سال قبل اپنی اہلیہ زریفہ اور چار سالہ بیٹی کے ساتھ واشنگٹن کے باہر ڈیلاس انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہمارے ملک کو ہماری ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے سکیورٹی حالات کی وجہ سے ہم اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ گھر ہمیشہ گھر ہوتا ہے مگر ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔‘

وہ ایک خصوصی امیگرنٹ ویزا کے تحت امریکہ آئے۔ وہی ویزا جو ان افغان شہریوں کو امریکہ میں محفوظ پناہ دے سکتا ہے جنہوں نے امریکی افواج یا سفارتی پروگراموں کے ساتھ کام کیا۔

اب 20 سال بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا جاری ہے اور ان کے ساتھ مترجم اور دیگر خدمات انجام دینے والے افغان شہریوں کو طالبان کے حملوں کا خطرہ ہے۔

حالانکہ طالبان دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایسے افغان شہریوں کو ان سے کوئی خطرہ نہیں، لیکن حالیہ ہفتوں میں ملک میں ان کی پیش قدمی سے شہریوں میں مزید خوف پھیل گیا ہے اور امریکہ سمیت دیگر ممالک نے بھی اپنے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو اپنے ملک منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے 200 سے زائد افغان اور ان کے خاندان گذشتہ ہفتے ڈیلاس ایئرپورٹ پہنچے ہیں۔

زلمی کے لیے یہ ایک جانی پہچانی کہانی ہے، جنہوں نے نو سال نیٹو اور یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کرنے کے بعد طالبان کی بڑھتی ہوئی دھمکیوں کے پیش نظر اس مخصوص ویزے کے لیے اپلائی کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہیں اپنے کیمرا مین کے پیشے سے خاص لگاؤ تھا اور اس کے لیے انہیں افغان حکومت سے میڈل بھی مل چکا ہے، مگر امریکہ میں اس پیشے سے الگ ایک نئی زندگی کا آغاز ان کے لیے ایک چیلنج تھا۔

تاہم امریکی حکومت، ساتھی افغانوں اور نئے دوستوں کی مدد سے انہوں نے یہ سفر شروع کیا اور اب نئے آنے والے افغان شہریوں کی بھی ایسے ہی مدد کرنا چاہتے ہیں۔

’جنوری 2018 میں میں امریکہ منتقل ہوا۔ شروع میں میرے لیے یہ ماننا بہت مشکل تھا کہ یہ میرا دوسرا گھر ہے، کیونکہ میری انگریزی اتنی اچھی نہیں تھی۔ میں بات کرتا تھا تو کسی کو میری سمجھ نہیں آتی تھی۔ میری اہلیہ اور بیٹی کو بھی انگریزی نہیں آتی تھی۔‘

صمیم کے مطابق انہیں جی پی ایس کی مدد سے گاڑی بھی نہیں چلانی آتی تھی اور نہ ہی اوبر یا لفٹ کے بارے میں پتہ تھا۔

امریکہ آنے کے دو ماہ کے اندر ہی وہ اور ان کی اہلیہ خطرے کے باوجود واپس افغانستان جانے کا سوچنے لگے، مگر صمیم کے افغان دوستوں نے انہیں سمجھایا اور رائیڈ شیئرنگ سروس میں کام شروع کرنے میں مدد کی۔

دوستوں نے انہیں ان کی پہلی گاڑی بھی بیچی اور کہا کہ وہ قسطوں میں اس کی آٹھ سو ڈالر کی قمیت چکا سکتے ہیں۔

جب انہوں نے اوبر کے لیے گاڑی چلانا شروع کی تو ان کی جیب میں 50 ڈالر تھے۔ آج ان کے پاس دو گاڑیاں ہیں اور وہ خود کو معاشی طور پر مستحکم محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ٹیکسی چلائیں گے، مگر کیمرے کے پیچھے ہونے کا ان کا خواب اب بھی ان کے ساتھ۔

’میں اب بھی واشنگٹن ڈی سی میں کیمرا کا کنگ بننا چاہتا ہوں۔ شاید ایک دن ایسا ہو جائے۔ اگر آپ محنت کریں تو سب کچھ ممکن ہے۔‘

حالیہ دنوں میں امریکہ پہنچنے والے ان کی طرح کے دیگر اور تارکین وطن افغانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اس پر خوش ہیں۔

’میں انہیں امریکہ میں خوش آمدید کہتا ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا