غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے والوں کو ہم سے خطرہ نہیں: طالبان

طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر غیر ملکی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان ’ندامت دکھاتے‘ ہیں تو انہیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، تاہم افغانوں کو اس یقین دہانی پر اعتبار نہیں۔

جون 2011 کی اس تصویر میں خوست صوبے میں ایک افغان فوجی امریکی فوجیوں کے لیے مترجم کی خدمات دے رہا ہے۔ غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو امریکی انخلا کے بعد سکیورٹی خدشات کا سامنا ہے۔ (اے ایف پی)

طالبان کا کہنا ہے غیر ملکی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان اگر ’ندامت دکھاتے‘ ہیں تو ان کو ملک سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیٹو اور امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والوں، خاص طور پر مترجم کا کام کرنے والے، ہزاروں افغانوں کو بیرون ملک رہنے کے لیے ویزے مل چکے ہیں۔ تاہم اب بھی سینکڑوں ایسے ہیں جو امریکی انخلا کی 11 ستمبر کی تاریخ سے قبل ملک سے جانے کی کوشش میں ہیں۔  

حالیہ ہفتوں میں کئی مترجموں نے کابل میں مظاہرے بھی کیے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ جن غیر ملکی افواج اور سفارت خانوں کے ساتھ انہوں نے کام کیا ہے وہ انہیں بیرون ملک جانے میں مدد کریں۔

طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے: ’ان کو (غیر ملکیوں کے ساتھ کام کرنے والوں کو) ہم سے کوئی خطرہ نہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’اسلامی امارات ان سب لوگوں کو بتانا چاہے گی کہ انہیں اپنے ماضی میں کیے گئے عوامل پر پچھتاوا ظاہر کرنا چاہیے اور مستقبل میں ایسی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لینا چاہیے جس کو اسلام اور ملک سے بغاوت کے مترادف ہو۔‘

طالبان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا، پر ’جب وہ دشمنوں کی صفوں کو چھوڑ دیں گے، تو ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

 

بیان میں کہا گیا: ’انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘

گذشتہ دو دہائیوں میں طالبان کی جانب سے حملوں میں درجنوں افغان مترجم ہلاک ہو چکے ہیں یا پھر تشدد کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔

دوسری جانب افغان مترجم محمد شعیب ولی زادہ، جو امریکی فوج کے ساتھ کام کر چکے ہیں، نے طالبان کی اس یقین دہانی کو مسترد کرتے ہوئے کہا: ’مجھے طالبان پر یقین نہیں ۔۔۔ وہ صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، تو کیا ہمیں بخشیں گے؟‘

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’وہ کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔ وہ بدلہ لیں گے کیونکہ وہ ہمیں ایجنٹ یا جاسوس سمجھتے ہیں۔‘

2018 سے 2020 کے درمیان امریکی فوج کے ساتھ  مترجم کا کام کرنے والے امید محمودی نے گذشتہ ہفتے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ہمیں معاف نہیں کریں گے، وہ ہمیں مار ڈالیں گے اور سر کاٹ دیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی سفارت خانے کے ساتھ 10 سال تک کام کرنے والے مترجم عمر نے کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ملک نہیں چھوڑا  تو وہ زیادہ دیر تک طالبان سے بچ نہیں سکیں گے۔

اپنے تحفظ کے حوالے سے خدشات کے باعث اپنا پورا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے عمر نے کہا: ’مجھے امریکیوں کے لیے کام کرنے کر ملال ہے۔ وہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ میرے اپنے چچا اور کزن مجھے امریکی ایجنٹ کہتے ہیں۔‘

گذشتہ ہفتے آسٹریلیا کی جانب سے کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کرنے کے بعد طالبان نے دوسری غیر ملکی سفار خانوں کو یقین دہائی کرانے کی کوشش کی۔  

انہوں نے کہا کہ وہ غیرملکی افواج کے ملک سے جانے کے بعد بھی غیر ملکی سفارتی مشنوں کو ’محفوظ ماحول‘ فراہم کریں گے۔

امریکی وزیر داخلہ انٹنی بلنکن نے پیر کو کہا کہ ویزا کی درخواستوں پر غور کرنے کے لیے مزید اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔

کانگریس کی ایک سماعت میں جب ان سے ایک قانون ساز نے پوچھا کہ کیا مترجموں کو بھی ملک سے نکال لینا چاہیے کیونکہ فوج کا انخلا ان کی ’موت کے وارنٹ پر دستخط کرنے‘ کے برابر ہے، تو بلنکن کا کہنا تھا: ’ہم ہر آپشن پر غور کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ امریکی فوج کے جانے کے بعد فوراً ہی حالات بگڑ جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا