اسلام آباد کے وزیر اعظم کو وہیں جا کر پکڑنا ہو گا: پنجاب کے وزیر تعلیم

پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ان کے خیال میں 60 سے 120 دنوں میں عام انتخابات ہو جائیں گے۔

پنجاب کے وزیر برائے سکول ایجوکیشن مراد راس نے کہا ہے کہ ‘موجودہ حکومت کے خلاف ہم جو بھی قدم اٹھائیں گے وہ اسلام آباد میں ہی اٹھائیں گے کیونکہ وفاقی حکومت صرف اسلام آباد میں ہی ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد کے وزیر اعظم جو 20 سے 25 کلومیٹر کے وزیر اعظم ہیں ان کو وہیں جا کر پکڑنا پڑے گا۔’

مراد راس نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے سب کو اتوار کے دن اسلام آباد بلایا ہوا ہے۔ ’دو چار دن میں سب کو معلوم ہو جائے گا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اتنی ہے کہ وہ گھر بیٹھے کال دیں تو لوگ باہر آجاتے ہیں اس لیے لانگ مارچ یا دھرنے دینا کوئی بڑی چیز نہیں لیکن بنیادی ضرورت اس وقت ملک کو ٹھیک کرنا ہے۔ 

عام انتخابات کے حوالے سے مراد راس کا کہنا ہے: ’ہم تو چاہتے ہیں کہ عام انتخابات کل ہو جائیں لیکن میرے خیال میں اگلے 60 سے 120 دن میں انتخابات ہو جائیں گے اس سے آگے نہیں جا سکتے۔‘

’ہمارے ملک کی غیر مستحکم صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئی ہمیں ایک روپیہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ جو اوپر بیٹھے ہوئے ہیں ان پر دنیا کے اندر کوئی اعتماد نہیں کرتا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے گزشتہ چالیس برس میں پیسوں کے ساتھ کیا کیا ہے۔ آئی ایم کی جانب سے بھی گنتی کے پیسے ملے ہیں جو وہ ہمیں خیرات سمجھ کردیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایک بلین ڈالر سے آپ کے خیال میں کچھ ہو گا ان پیسوں سے اس ملک کا کچھ بھی نہیں ہوگا۔‘

پنجاب حکومت میں تبدیلی؟

پنجاب میں حکومت تبدیلی کی بازگشت کے حوالے سے مراد راس نے کہا ’جنہوں نے حکومت لینی ہے وہ ہم سے لے لیں ہمیں تو عام انتخابات چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب یا وفاق میں حکومت ہو نہ ہو اس وقت ہمارے ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہونا چاہییں اور جو ووٹ کے ساتھ آ جائے وہ آکر ملک چلائے۔‘

مراد راس کا کہنا تھا کہ ’اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ پنجاب کی افسر شاہی صرف وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کی ہدایات پر عمل کرتی ہے اور وزرا کی بات نہیں سنتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پرویز الہیٰ زبردست طریقے سے پنجاب کی حکومت چلا رہے ہیں۔

گجرات کے لیے اربوں کے فنڈز وزرا کے مشورے کے بغیر مختص کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’اس وقت اس طرح کی باتیں ن لیگ نکال رہی ہے کیونکہ میڈیا کے اوپر ان کا کافی دباؤ ہے اور میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔

’میرے خیال سے میڈیا ایسی باتیں کرتا ہے لیکن ایسی کوئی چیز نہیں۔ چوہدری پرویز الہیٰ نے وہ فنڈز وزرا سے مشورہ کر کے مختص کیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی چیز ہوتی ہے وہ کابینہ سے مشاورت کے ساتھ ہوتی ہے۔ گجرات ہو لاہور یا میانوالی، جہاں جو کچھ بھی کیا جاتا ہے اس کے لیے سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں۔‘

سیلاب زدہ علاقوں میں سکولوں کی بحالی

سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا: ’ہم نے سیلاب زدہ علاقوں میں سکولوں کی بحالی کے لیے دو ارب 80 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔

}میں خود سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گیا جن میں روجھان، فاضل پور، راجن پوروغیرہ شامل ہیں۔ ہمیں ڈبل مار پڑ رہی تھی کہ جو سکول کھلا ہے وہاں شیلٹر بن گیا اور دوسرا سکول سیلاب میں ڈوب گیا ہے۔

’نقصان بچوں کو ہو رہا تھا۔ ہم نے سوچا جو سکول ٹھیک ہیں کم از کم انہیں تو خالی کروائیں تاکہ وہاں بچے آکر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کر سکیں۔‘

’ان علاقوں میں زیادہ تر سکول ہم نے گزشتہ سوموار سے کھول دیے ہیں۔ ان علاقوں میں جن سکولوں کو سیلاب متاثرین کے لیے شیلٹر کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا میں وہاں گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ انہیں واپس جانے کے لیے کیا چاہیے، کیونکہ کافی جگہوں سے سیلاب کا پانی اتر چکا تھا۔ اس لیے لوگوں نے بتایا کہ انہیں ٹینٹ چاہیے، کھانا اور پانی چاہیے۔ میں اپنے حلقے میں گیا وہاں سے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ ہم نے مل کر کھانا پانی اور جتنے ٹینٹ چاہیے تھے انہیں مہیا کیے اور ایک ہفتے کے اندر اندر ہم نے راجن پور کے زیادہ تر سکولوں سے لوگوں کو گھر بھیج دیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سیلاب زدہ علاقوں میں زیادہ تر لوگ گھر جانا چاہ رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ زیادہ تر سکولوں کو وہاں کھول دیا جائے۔‘

پنجاب میں جو بچے سکول نہیں جا پاتے، ان کے حوالے سے مراد راس کا کہنا تھا: ’جب ہم سیلاب سے پہلے مارچ میں یہ وزارت چھوڑ کر گئے تھے اس وقت کہا گیا کہ ایک کروڑ یا دو کروڑ بچوں کو سکولوں تک رسائی نہیں۔

’یہ بات بالکل بھی سچ نہیں تھی۔ ہمارے پاس جو نمبر آرہا تھا وہ چار سے پانچ ملین بچوں کا تھا جو سکول سے باہر تھے۔‘

’ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے 70 فیصد بچے پانچویں کے بعد سکول نہیں جارہے تھے۔ ان کے لیے ہم نےسب سے بڑا قدم اٹھایا اور دوپہر کا سکول شروع کیا۔ ہمارے ملک میں دو بجے سکول کو تالے لگا کر لوگ گھر چلے جاتے ہیں۔ ہم نے انہی سکولوں کو دوپہر میں ایلیمنٹری سکول بنا دیا۔ اب وہ بچہ یا بچی جو پانچویں کر کے سکول چھوڑ گئے ہیں انہیں آگے تعلیم کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ وہ اسی سکول میں دوپہر کے وقت آرہے ہیں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کے لیے۔‘

’صبح میں جو استاد پڑھا رہے تھے ہم نے ان سے کہا کہ آپ نے سکول کے بعد ٹیوشن پڑھانے بھی تو جانا ہے تو آپ اسی سکول میں پڑھائیں، ہم آپ کو اس کے پیسے دیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک لاکھ بچے ایک مہینے میں سکول آ گئے۔ اور اس وقت ڈھائی لاکھ بچے جو گھر بیٹھے تھے وہ سکول پڑھنے کے لیے واپس آ گئے۔‘

’مگر ن لیگ نے اپنے دور کے چار مہینے میں ہمارا وہ سسٹم چلنے نہیں دیا اسے آگے ہی نہیں بڑھایا جس کی وجہ سے ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑا، لیکن ہم نے پھر سے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔‘

مراد راس کا کہنا تھا کہ ’اگر میں یہ قدم اٹھانے کی بجائے کہتا کہ نئے سکول بنائیں جو گذشتہ حکومت کی ذہنیت ہے تو ہمارے 295 ارب روپے خرچ ہو جانے تھے۔

’ان سکولوں کی تعمیر میں کم از کم پانچ سال کا عرصہ لگتا۔ اس کی بجائے ہم نے چھ مہینے کے اندر سات ہزار سکول اپ ڈیٹ کیے اور وہ بھی صرف ساڑھے چھ ارب روپے میں۔‘

انصاف اکیڈمی

سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے شروع کیے جانے والی انصاف اکیڈمی کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’سکول والے الگ پیسے بنا رہے ہیں اور اکیڈمی والے الگ اور جو نتیجے نکل رہے ہیں مجھے نہیں لگتا ہم اپنے بچوں کو کوئی اعلیٰ معیاری تعلیم دے رہے ہیں۔

’اسی لیے ہم نے نویں سے بارہویں تک بچوں کے لیے انصاف اکیڈمی پورٹل کا آغاز کیا۔‘

کیا اکیڈمیاں آپ کے اس منصوبے پر کوئی رد عمل نہیں دیں گی؟ اس سوال پر مراد راس کا کہنا تھا: ’مجھے پرواہ نہیں کہ کس کا کیا ردعمل ہوگا۔ ہم نے پہلے بھی بہت سے ایسی چیزیں کیں اور مجھے کبھی اس بات کی فکر نہیں ہوئی کہ کسی کا کیا ردعمل آئے گا۔ مجھے اگر یہ فکر ہوتی تو میں کچھ بھی نہ کر پاتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی ٹیگ لائن ہی یہ ہے کہ ہر گھر بنے گا سکول۔

’جب آپ ہر گھر کو سکول بنانے جا رہے ہیں تو میرے خیال میں انصاف اکیڈمی اس کی جانب پہلا قدم ہے۔‘

تعلیم کارڈ؟

صحت کارڈ کے بعد تعلیم کارڈ کے اجرا کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے میں ابھی تفصیلات نہیں بتا سکتا۔ میرے خیال میں جب آپ کے ہاتھ میں کوئی ٹھوس چیز ہو جس کے حوالے سے آپ سب فیصلے کر چکے ہوں تب آپ کو اس کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں وہ تعلیم کارڈ کے حوالے سے میڈیا کو تفصیلات بتائیں گے۔ 

محکمہ تعلیم کی جانب سے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم مفت دینے پر صوبائی وزیر تعلیم نے بتایا: ’اس منصوبے پر میں نے گذشتہ برس دسمبر میں کام شروع کیا تھا۔

’انٹرمیڈیٹ کے طالب علم پرائمری اور ایلیمنٹری کے بچوں سے کم تعداد میں ہیں۔

’اس لیے میں نے کہا تھا کہ انہیں مفت تعلیم دینی چاہیے۔ ایسی صورت حال میں میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے جس حد تک ہو سکے آسانی فراہم کرنی چاہیے۔

’میں نے چونکہ خود ساری زندگی فنانس پڑھا ہے اس لیے میں خود دیکھ رہا ہوں کہ اس منصوبے کا بہترین نتیجہ کس طرح سامنے آسکتا ہے۔‘

کیا تعلیم کے لیے دیا جانے والا بجٹ کافی ہے؟

اس سوال کے جواب میں مراد راس کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے وزارت سنبھالی تو انہوں نے اپنے دفتر کے لوگوں سے پوچھا کہ اگر انہیں ایک دن میں سب کچھ ٹھیک کرنا ہو تو انہیں کتنے پیسے درکار ہوں گے۔ ایک ہفتے بعد انہیں معلوم ہوا کہ انہیں چار ارب روپے درکار ہوں گے۔

’میں نے کہا کہ چار ارب تو ہمارے پاس کہیں سے نہیں آ سکتے اس لیے جو کچھ موجود تھا اسی سے کام چلانے کی کوشش کی۔‘

’میں نے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا کیونکہ اس میں پیسے اتنے نہیں لگتے۔ آپ ایپس بناتے جائیں اور سب کچھ اس پر ڈالتے جائیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کا فوکس اساتذہ پر تھا کیونکہ ان کے خیال میں جب انہوں نے وزارت سنبھالی تو اساتذہ سوائے پڑھانے کے ہر چیز میں پھنسے ہوئے تھے۔ ’وہ چھٹی، تبادلے، اے سی آر، ریٹائرمنٹ کے چکروں میں پھنسے ہوئے تھے اور انہیں پیپر ورک میں الجھایا ہوا تھا۔ میں نے آ کر سب کچھ آن لائن کر دیا اور اب میں سوچ رہا ہوں کہ مستقبل میں ایک استاد اس ساری سہولت کے بعد اب اسی چیز پر فوکس کرے گا جس کے لیے اسے رکھا گیا ہے اور وہ ہے ہمارے بچوں کو پڑھانا۔‘

یکساں قومی نصاب

یکساں قومی نصاب (سنگل نیشنل کریکلم – ایس این سی) کے حوالے سے مراد راس کہتے ہیں: ’یکساں قومی نصاب میں مضامین اردو میں ہونے سے جن بچوں کو مسئلہ ہے وہ ایک فیصد ہیں۔

’میں 99 فیصد بچوں کی بہتری کے لیے ایک فیصد بچوں کا نہیں سوچ سکتا۔ ایس این سی کے لیے جو مخالفت آئی وہ صرف لاہور میں ہی آئی۔‘

’لاہور کے باہر سے آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ ایس این سی ٹھیک نہیں۔

’اس مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ لاہور میں نجی سکول بہت زیادہ ہیں اور اگر انہوں نے بھی وہیں پڑھانا ہے جو سرکاری سکول پڑھا رہے ہیں تو وہ مہینے کے 50 ہزار فیس کی مد میں والدین سے کیسے لیں گے؟‘

وزیر تعلیم نے بتایا کہ ’پنجاب کے 70 فیصد نجی سکول پانچ ہزار روپے سے کم فیس والے ہیں۔ انہوں نے ایس این سی کو دل سے قبول کیا۔

’ان سکولوں کا کہنا تھا کہ ہم تو پہلی مرتبہ مہنگے سکولوں سے مقابلہ کر پا رہے ہیں۔ مراد راس کا دعویٰ ہے کہ ایس این سی پر لاہور کے چند سکول ہیں جنہیں اعتراض ہے باقی کسی کو اعتراض نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ شاید ’ہمیں اسے تھوڑا آہستہ لانا چاہیے تھا یا شاید پرائمری سے شروع کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے بتایا کہ جہاں تک مضامین کے اردو میں ہونے کی بات ہے تو چھٹی جماعت سے سب کچھ انگریزی میں ہو جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایس این سی کے پیچھے مقصد یہ تھا کہ دنیا میں کہیں بچوں کو غیر ملکی زبان میں نہیں پڑھایا جاتا۔ ان کو سمجھ ہی نہیں آتا۔

’ہمارے بچے بھی رٹا لگاتے ہیں کیونکہ وہ انگریزی میں سب کچھ پڑھ رہے ہیں۔

’نہ ان کے ماں باپ انگریزی بولتے ہیں نہ خاندان میں کوئی اور، اور آپ انہیں کہتے ہیں کہ پڑھائی انگریزی میں کرنی ہے۔

’دنیا کے جتنے بھی کامیاب ملک ہیں وہ پڑھائی کے پہلے پانچ سال بچوں کو سب کچھ اپنی زبان میں پڑھاتے ہیں تاکہ بچے کو سمجھ آئے اور بچے کو سمجھ اپنی ہی زبان میں آئے گا۔‘

مراد راس نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ اس وقت اردو میں تحریر کی گئی کتابوں میں اردو بہت مشکل استعمال کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’10 سال ہو گئے ہماری کتابوں کو اپ گریڈ ہی نہیں کیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ جب وہ وزیر بنے تو ایک کتاب ان کے پاس آئی جو 19-2018 کی کتاب تھی اور اس میں فلاپی ڈسک کی بات ہو رہی تھی۔

’فلاپی ڈسک کو مرے ہوئے بھی 20 سال ہو چکے ہیں، ہم اگر ڈھونڈیں بھی تو ہمیں نہیں ملے گی۔ وہ ابھی تک کتابوں کے اندر زندہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر سال ’ہم اب ان کتابوں کو اپ ڈیٹ کریں گے اور ہم پیشہ وارانہ طور پر لوگوں کی اس حوالے سے رائے لیتے ہیں اور مستقبل میں بھی یہ کتابیں ہم بہتر سے بہترین کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان