یکساں نظام تعلیم کے ساتھ نئے مضامین کی بھی ضرورت ہے 

کسی ملک کی تعلیمی پالیسی میں سب سے اہم ان ممالک کا نصاب ہوتا ہے جس کو بہت باریک بینی سے پرکھا جاتا ہے اور یہ نصاب کوئی عام لوگ نہیں بناتے۔

یہ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہیں کہ وہ اپنی نسل کو وہ پڑھائیں جس سے ان کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو (اے ایف پی)

یہ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہیں کہ وہ اپنی نسل کو وہ پڑھائیں جس سے ان کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو۔ ان میں سوالات کرنے کی اہلیت آ جائے۔

ہمارے ملک میں سب اس کے الٹ ہوتا ہے۔ اس پر ہمارے حکمران جماعتوں کے ساتھ بیوروکریسی کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ جس کے باعث ابھی تک کسی بھی صوبے میں اور کسی بھی کلاس کے لیے ہمارے ملک میں یکساں نصاب تعلیم وضع نہیں کیا جا سکا حالانکہ ہر حکومت نے اس بارے میں واویلا مچایا۔ 

مگر کسی نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سکولوں کا نصاب تو چھوڑیں یونیورسٹیاں تیس چالیس سالہ پرانا نصاب کو پڑھا رہی ہیں حالانکہ تحقیق میں ریفرنس بک کو بھی دس سال سے زیادہ والے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

اب ایک امید ہوچلی ہے کہ تحریک انصاف حکومت یکساں نصاب تعلیم کی بات کر رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ 

موجودہ نصاب کی بدولت ہمارے بچوں میں ہندو مسلم کی گردان سامنے آ رہی ہے۔ میرے اپنے بچے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھتے ہوئے انڈین چینل دیکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ’یہ ہندو ہیں، یہ دوزخ میں جائیں گے، یہ ہمارے دشمن ہیں، ان سے ہم نے بہت جنگیں کی ہیں۔ ہندو ہمارے دوست کبھی نہیں ہو سکتے۔‘ 

یعنی بچپن سے ہی ان کو سکھا دیا ہے کہ ہندو ہمارے دشمن ہیں حالانکہ ہمارے اباواجداد کے ساتھ علیحدگی سے پہلے یہ ہندو ایک ہی تھالی میں کھاتے تھے۔ شادی میں یہ ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے مگر وقت بدلا تو ہندو ہمارے دشمن بن گئے۔

یہ سب جنرل ایوب کے دور سے شروع ہو کر جنرل مشرف پر ختم ہوا جنہوں نے نصاب تعلیم میں نفرت انگیز مواد کو  شامل کرنے کی ابتدا کی۔

سب سے پہلے 1959 میں تاریخ، جغرافیہ اور شہریت کے مضامین کو ایک معاشرتی علوم کے مضمون میں ضم کر دیا گیا اور اس دور حکومت میں تاریخ کے مضمون کو مسلمانوں کی آمد اور آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد تک محدود کر کے غیرمسلموں خاص کر ہندوؤں کے خلاف نفرت انگیزی کی انتہا کر دی گئی۔ اردو میں بھی مسلم قومیت اجاگر کرنے کے مضامین شامل کیے گئے تو دوسری جانب جغرافیہ بھی تبدیل کر دیا گیا۔ 

پاکستان کے نظام تعلیم میں گو کہ مختلف ادوار میں تبدیلیاں ضرور لائی گئیں، لیکن یہ تبدیلیاں معاشرے پر خاطر خواہ مثبت اثرات مرتب کرنے میں ناکام رہیں۔ 

دراصل جہاں آج پاکستان قائم ہے وہ علاقہ مغلیہ دور سے پسماندہ چلا آ رہا ہے۔ جب انگریزوں کی حکمرانی تھی ان کا نصاب تعلیم چلتا آ رہا تھا بعد میں جب علیحدگی ہوئی تو بھی ان کا ہی نصاب لاگو کیا گیا۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد یعنی اسی برس قومی تعلیمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، لیکن ماہرین کی کمیابی اور وسائل کی عدم دستیابی کے سبب تمام سطحوں پر برطانوی دور کے نصاب کو جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ انڈیا میں عبدالکلام آزاد وزیر تعلیم بنا دیے گیے۔

اگر جائزہ لیا جائے تو وہ ہم سے کچھ حد تک بہتر ہیں بلکہ اب تو بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔

یہ نہیں ہے کہ ملک میں تعلیمی پالیسیوں پر کام نہیں کیا گیا۔ ہر دور میں کوشش کی گئی اور ملک بننے کے بعد چھ سالہ پالیسی بنائی گئی جو جنرل ایوب کے وقت میں ختم ہو گئی پھر 1972 کی تعلیمی پالیسی ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی جس میں بیوروکریسی کا ایک بڑا کردار رہا مگر جب ضیا‍‍‌‍‌‍ الحق کا دور آیا تو وہ پالیسی غیر فعال ہو گئی اور پھر نئی تعلیمی نصاب میں مذہبی تنگ نظری کا پرچار کر دیا گیا۔

دینیات کا نام تبدیل کر کے اسلامیات کر دیا گیا۔ ہندو کمیونٹی یہاں سے دشمن بننا شروع ہوئی۔ نواز شریف کے بعد مشرف دور حکومت تک تعلیمی نصاب میں خامیاں بیوروکریسی کے زیر اثر رہی اور نفرت انگیز مواد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ 

آج ہر صوبے میں علیحدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے، جس میں بہت سی غلطیاں ہیں حال ہی میں خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر کے حوالے سے ایک مضمون سوشل میڈیا پر شیئر ہوا اور حکومت کو نوٹس لینا پڑا۔

اسی طرح وقتا فوقتا کچھ نہ کچھ غلطیاں کسی نہ کسی کتاب میں سامنے آجاتی ہے، جس کو تبدیل کرنے کے احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں نجی تعلیمی اداروں کا نصاب الگ، سرکاری تعلیمی اداروں کا الگ، کیمبرج سسٹم کا الگ جس سے طبقاتی نظام پیدا ہوا ہے جس کی ذمہ داری ریاست کے سر ہے۔ 

یکساں نظام تعلیم ایک اچھی سوچ ہے، جس کے نتائج بہترین نکلیں گے لیکن اس تبدیلی کے ساتھ موجودہ وقت کے تناظر میں اگر نصاب میں کچھ نئے مضامین کا اضافہ کر دیا جائے تو بہت ہی اچھا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ کچھ مضامین میں تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے جس میں سب سے پہلے پاکستان سٹڈی شامل ہے کیونکہ ہم اس مضمون میں نہرو رپورٹ، چودہ نکات، مہاجرین کے مسائل، کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ کے علاوہ بہت کچھ ڈالا جا سکتا ہے۔ 

جغرافیہ میں بھی بہت زیادہ تبدیلی کی ضرورت ہے ملک میں کتنے زیادہ معدنی وسائل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اس بارے بتایا جاسکتا ہے۔ سیاحت، آرکیالوجی، سوشل میڈیا، خاندانی نظام، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، مذہبی ہم آہنگی، آبادی اور تولیدی نظام، ٹریفک اصول، شہری دفاع سمیت بہت سے مضامین پڑھائے جاسکتے ہیں جو کہ موجودہ وقت کی ضروت ہے۔

ان سب کے علاوہ ہر صوبے کے اپنے اپنے ہیرو کے حوالے سے تاریخ پڑھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے ہمارے ہیروز سے باخبر ہوں، جس طرح خیبر پختونخوا میں عمراخان جندول جس کو فرنگی افغان نپولین کہتے تھے، فاتح میوند محمد ایوب خان یہاں قریب پشاور میں دفن ہے جن کا نام آج بھی فرنگی پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ انہوں نے فرنگی فوج کو میوند میں شکست دی تھی۔

فقیر ایپی‘شیخ ملی کاکاجی صنوبر، ببرک خان ان سب محترم پختون ہستیوں کے بارے میں ہمارے بچوں کو کوئی معلومات نہیں ہیں کیونکہ یہ سب ہمارے نصاب کا حصہ نہیں اس میں قصور ہمارے بچوں کا نہیں بلکہ ہمارے نظام کا ہمارے بڑوں کا قصور ہے۔

انہوں نے نصاب میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی، مغلیہ دور، درانی کا دور حکومت، ترکوں کی کہانیاں، طارق بن زیاد، تیمور لنگ اور اس جیسے بہت سے کرداروں کو جگہ دی ہے مگر جنگ آزادی کے عظیم ہیرو حاجی صاحب ترنگزئی کو چھپایا اور دہلی اور لکھنو کے پہلوان پڑھائے جس سے ہمارے بچوں کا کوئی تعلق ہی نہیں۔

اسی طرح شاعری میں اپنے علاقے کے شعرا اور ادبا کی تحریروں اور خیالات کو جگہ دی جائے، تو امید کی جا سکتی ہے کہ ہماری آنے والی نسل موجودہ نسل سے میدان میں بہت آگے ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ