پاکستان اور قطر نے ہفتے کو ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز بالخصوص مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں شراکت داری بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ مفاہمت دوحہ میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کے قطری ہم منصب علی بن احمد الکواری کے درمیان ملاقات کے دوران طے پائی۔
وزارت خزانہ سے جاری بیان کے مطابق دونوں فریقوں نے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے، خاص طور پر نئے خلیج تعاون کونسل۔پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے ذریعے پیدا ہونے والے مواقع کو زیادہ سے زیادہ بڑھاؤ، تجارتی روابط کو وسعت دینے اور طویل مدتی ایل این جی تعاون سمیت توانائی کے شعبے میں تعاون کو گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر، مہارتوں کی ترقی اور ریگولیٹری اصلاحات پر تعاون پر تبادلہ خیال کیا اور تجارتی تنوع، ٹیکنالوجی، موسمیاتی لچک اور سرمایہ کاری کی سہولت میں مشترکہ کام کو آگے بڑھانے کے لیے منظم طریقہ کار وضع کرنے پر اتفاق کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان اور قطر کے تعلقات تذویراتی ترقی کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔
اس سے قبل وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ہفتے کو 23 ویں دوحہ فورم کے موقعے پر ایک اعلیٰ سطح کی مباحثی نشست بعنوان ’عالمی تجارتی کشیدگی: مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ میں اقتصادی اثرات اور پالیسی ردعمل‘ میں شرکت کی۔
دوحہ فورم، قطر کی وزارتِ خزانہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی دعوت پر ہونے والے اس مباحثے میں خاص طور پر اس امر پر توجہ دی گئی کہ خطہ بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتِ حال، بدلتی ہوئی رسد کی زنجیروں اور تعاون و تنوع کے نئے مواقع سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
سینیٹر اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کے تحت پاکستان میں جامع اقتصادی استحکام کی پیش رفت اور ٹیکس، توانائی، سرکاری اداروں اور نجی شعبے کی ترقی سے متعلق جاری ساختی اصلاحات کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ محصولات کے حوالے سے مثبت سفارتی رابطہ کاری کی ہے جس کے نتیجے میں اہم ٹیکسٹائل برآمدات پر 19 فیصد سازگار محصول حاصل ہوا ہے، جب کہ مصنوعات اور منڈیوں کے تنوع کی رفتار بھی تیز ہوئی ہے۔
وزیرِ خزانہ نے پاکستان کی معلوماتی ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات میں اضافہ کو نمایاں کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال ان کی مالیت چار ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جب کہ خلیجی اور وسطی ایشیائی معیشتوں کے ساتھ تجارتی روابط بھی وسعت پا رہے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ پاکستان عالمی غیر یقینی حالات کے پیشِ نظر ہوشیار ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلی اور آبادیاتی دباؤ ملک کے طویل المیعاد سب سے بڑے چیلنج ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں حالیہ سیلابوں کی مثال دی جن کے باعث اس سال معاشی ترقی کی شرح میں صفر اعشاریہ پانچ فیصد کمی ہوئی۔