راولپنڈی کے انجینیئر کا ’کول کچن‘

ٹیلی کام انجینیئر محمد منیب جو گھر کے بنے کھانوں کا ایک ڈھابہ چلاتے ہیں اور گوشت کو مصالحہ تک خود لگاتے ہیں۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے محمد منیب نے کامسیٹس یونیورسٹی سے ٹیلی کام انجنیئرنگ کی مگر خود کو ’برینڈ‘ بنانے کی خواہش میں انہوں نے کول کچن کے نام سے ڈھابہ بنایا۔

محمد منیب نے کامسیٹس یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے، پیشے کے لحاظ سے ٹیلی کام انجینئر ہیں لیکن ساتھ ساتھ ایک انٹرپرنیور بھی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈگری مکمل کرنے کے بعد میں ٹیوشنز پڑھا رہا تھا لیکن اس وقت زندگی میں کچھ مقصد نظر نہیں آرہا تھا۔ پھر مجھے راہ نظر آئی کہ میں نے ایک برینڈ بنانا ہے۔ تب میں نے یہ کول کچن شروع کیا۔‘

’ شروع میں بہت مشکلات پیش آئیں کیونکہ آپ کو ہر کام شروع کرنے سے پہلے موٹیوشن چاہیے ہوتی ہے۔ لیکن دماغ میں ایک بات آرہی تھی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ایک پڑھا لکھا بندہ سٹال بنا کر کھڑا ہو گیا ہے۔‘

’اس کام کی شروعات سے میں نے اپنے ایک دوست سے مشورہ کیا اور انہوں نے مجھے بہت موٹیویٹ کیا۔‘

منیب کا کہنا تھا کہ ’جب پہلے دن میں نے کام شروع کیا تو میری سیل پانچ ہزار کی ہوئی تھی جو میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔‘

’مجھے ایک بات کا اندازہ ہوا کہ ہر چیز میں برکت ڈالنے والا اللہ پاک ہے اور اس دن میں بہت رویا تھا کہ اللہ پاک یہ پانچ ہزار میں نے کیسے کما لیے ہیں؟‘

’یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتا کہ کسٹمر کہاں کہاں سے آئے گا آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب روٹین یہ ہو گئی تھی کہ نوکری بھی چل رہی تھی اور ٹیوشنز بھی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھ رہا تھا۔

’میری اٹھارہ گھنٹے کی ڈیوٹی تھی جو ایک بہت مشکل کام تھا اور میں ذیابیطس کا مریض بھی ہوں اور اس چیز کا مجھ پر بہت اثر ہو رہا تھا۔ لیکن زندگی میں کچھ کرنا تھا تو سوچ لیا کہ کچھ کرنا ہے تو کرنا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’پھر یہ روٹین چل رہی تھی گھر سے بھی پریشر بڑھ رہا تھا کیوں کہ کچھ کمائی نہیں ہورہی تھی۔ تو جب دوسری نوکری ملی تو اس وقت پھر میں بیس گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے لگ گیا تھا۔ میں نے نجی کمپنی میں نوکری کی، چار گھنٹے ٹیوشن پڑھائی اور ساتھ ساتھ اس کو بھی آٹھ گھنٹے دیے۔ تو اس طرح سے میں نے ایک سال محنت کی  اور اب میں میرے بہت کسٹمرز ہوگئے ہیں۔‘

’سب سے اچھی بات یہ تھی کہ جب میں نے مارکیٹنگ شروع کی تو میں ٹیوشن پڑھا رہا تھا۔ میں نے اپنے سٹودنٹس کو بتایا کہ  میں نے یہ کام شروع کیا ہے آئیں اور اس کا ذائقہ دیکھیں۔‘ اس کے بعد انہوں نے فوڈ ڈیلیوری شروع کی اور لوگوں کے گھر جا جا کر بتایا کہ یہ ان کی تیار کردہ ڈشز ہیں اور لوگوں سے کہا کہ آئیں اور ٹیسٹ کریں۔

’اس چیز سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ لوگوں نے دیکھا کہ پڑھے لکھے بندے کی اپروچ ہے اور سارا ہوم میڈ کھانا ہے  تو وہ یہاں آ رہے ہیں۔ اور لوگ پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے سپورٹ کرتے ہیں۔‘

’ہماری کھانے کی خاص بات یہ ہے کہ ہمار سارا کھانا ہوم میڈ ہے اور مرغی یا گوشت کو مصالحے بھی گھر میں ہی لگتے ہیں۔ میں نے اپنے والد صاحب سے اس کی ریسیپی سیکھی ہے، اور میں خود اس کو مصالحے لگاتا ہوں اور پھر اس کوآٹھ گھنٹے فریج میں رکھتا ہوں۔ صبح دس بجے اس کو مرینیٹ کرکے شام کو سات بجے نکلتے ہیں کیونکہ جتنا اچھا مرینیٹ ہو گا اتنا آپ کو مزا آئے گا کھانے کا۔‘

’سب سے اچھی بات یہ ہے کہ میرے والدین نے مجھے سپورٹ کیا۔ انہوں نے کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں میرا دماغ بہت نیگیٹیو تھا کہ لوگ کیا کہیں گے لیکن ان لوگوں نے مجھے سپورٹ کیا اور مجھے دعائیں دیں۔‘

’عموماً ایسا ہوتا ہے کہ کسٹمر اپنی رائے دیتے ہیں لیکن میں نے کسٹمرز کی دعائیں لی ہیں اور جو میں ہوں ان ہی کی وجہ سے ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا