سیلاب اور سیاسی پولرائزیشن

الزام تراشیوں اور الزامات کے علاوہ سیاسی مخالفین نے سیلاب کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جیسے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے کون زیادہ کام کر رہا ہے۔

دو ستمبر 2022 کی اس تصویر میں بلوچستان کے علاقے ڈیرہ اللہ یار میں سیلاب متاثرین پینے کے لیے صاف پانی لاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابوں نے ایک طرف پاکستان بھر میں تباہی مچا دی تو دوسری طرف پاکستانی سیاست کی پولرائزیشن (تقسیم) کو بھی بے نقاب کر دیا۔

اگرچہ حادثات اور قدرتی آفات معاشروں اور قومی ریاستوں کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر ایسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد قائم کرنے پر مجبور کرتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں مون سون کے سیلاب نے سیاسی پولرائزیشن کو مزید تقویت دی ہے۔

ایک طرف مختلف سیاسی جماعتیں سیلاب کو یہ ظاہر کرنے کے لیے ایک موقعے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کے لیے دوسرے سیاسی اداکاروں سے زیادہ کام کر رہی ہیں۔

دوسری طرف سیلاب سے متعلق امدادی کارروائیوں کو بھی سیاسی رنگ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ الزامات سامنے آئے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتیں ان علاقوں تک پہنچ رہی ہیں جہاں ان کی مضبوط حمایت ہے۔

مون سون کے سیلاب نے مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن کی زیرقیادت مخلوط حکومت اور پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومتوں کے درمیان جاری تنازعے کی وجہ سے پہلے سے موجود سیاسی پولرائزیشن کو مزید آگے بڑھایا۔

مرکزی حکومت پی ٹی آئی کو مالاکنڈ ڈویژن میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے کیونکہ صوبے میں اس کی حکمرانی کے آخری دس سالوں کے دوران دریا کے کناروں کے قریب غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دی گئی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی مرکزی حکومت پر اپنی نااہلی، خراب حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کے ذریعے سیلاب زدہ لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔

پی ٹی آئی کا یہ بھی الزام ہے کہ آئی ایم ایف کے سخت مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے مون سون کے سیلاب سے بحالی کے عمل کو ایک طویل اور محنت طلب عمل بنا دیا ہے۔

الزام تراشیوں اور الزامات کے علاوہ سیاسی مخالفین نے سیلاب کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے بھی استعمال کیا ہے، جیسے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے کون زیادہ کام کر رہا ہے۔

مثال کے طور پر مرکزی حکومت نے تباہ کن سیلاب کے باوجود اپنی سیاسی ریلیاں جاری رکھنے پر عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ انہوں نے اپنی سیاست کو عام لوگوں کے دکھ درد اور پریشانیوں پر ترجیح دی۔

دوسری جانب عمران خان نے ٹیلی تھون کے ذریعے چند گھنٹوں میں اربوں روپے اکٹھے کرکے سیلاب متاثرین کی مدد اور ان کے لیے ہمدردی کے جذبات کا اظہار کیا۔

دونوں فریقین ابھی تک اس بات پر زبانی کلامی جنگ میں بھی مبتلا ہیں کہ ٹیلی تھون کے دوران کیے گئے اربوں روپے کے وعدے حقیقی مدد میں بھی تبدیل ہوں گے یا نہیں۔

مرکزی حکومت خان کو مصیبت کے ان لمحات میں قومی اتحاد کے فقدان کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے، تاہم یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ پلوامہ بالاکوٹ بحران اور کرونا کے وبائی مرض کے دوران عمران خان نے متحدہ قومی ردعمل قائم کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔

سیلاب کے دوران سیاسی پولرائزیشن کے پاکستان کے سیلاب زدہ لوگوں پر تین منفی اثرات مرتب ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلا، چونکہ سیلاب کے باوجود سیاست ہر طرف حاوی رہی اس لیے قومی دھارے اور سوشل میڈیا دونوں پر قومی گفتگو کو سیاست نے ہائی جیک کیے رکھا جبکہ لوگ ڈوب رہے تھے اور اپنی قیمتی املاک کو کھو رہے تھے۔

 موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی، گلیشیئرز کے پگھلنے، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، مون سون کی بے مثال بارشوں اور لوگوں کو بروقت نکالنے اور سیلاب کے نتیجے میں جواب دینے کے لیے ہماری تیاری کے فقدان پر بحث کرنے کے لیے انتہائی ضروری بحث میڈیا کوریج میں غائب تھی۔

اسی طرح اس بات کی بھی تنقیدی جانچ نہیں کی گئی کہ 2010 کے سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور اس کے ذیلی اداروں نے مون سون کے سیلاب کے پیش نظر قومی اور صوبائی سطح پر قومی ردعمل کو متحرک کیوں نہیں کیا۔

دوسرا، سیلاب کی ناکافی میڈیا کوریج کا ایک اور منسلک لیکن الگ اثر یہ تھا کہ بین الاقوامی انسانی ردعمل کو بہت سست رفتاری سے متحرک کیا گیا۔

پاکستان میں مون سون کے سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں، جس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

لہٰذا، یہ عالمی برادری بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو معاوضہ ادا کریں۔ واضح طور پر پاکستان موسمیاتی ناانصافی کا شکار ہے۔ پاکستان کے لیے ایک مضبوط کیس بنانے کے لیے ان حقائق کو شروع سے ہی اجاگر کیا جانا چاہیے تھا۔

افغان، روس اور یوکرین کی جنگوں کے بعد، جس نے لاتعداد لوگوں کو بے گھر کیا، عالمی برادری میں ڈونرز پر تھکاوٹ غالب تھی، لہٰذا اس بحران کے پیمانے اور نقصان کی شدت کو اجاگر کرنے کے لیے میڈیا کے محاذ پر مزید ٹھوس کوششوں کی ضرورت تھی۔

تیسرا، بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن کے درمیان سیلاب سے متعلق امدادی کارروائیوں کی کوششوں کو بھی سیاسی بنایا گیا ہے۔

اس صورت حال نے سیلاب زدگان میں سیاسی طبقے کا برا تاثر چھوڑا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں ان کے دکھ درد کو ترجیح دینے کے بجائے سیاسی جماعتیں اپنی چھوٹی موٹی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے آزمائشوں اور مصائب کا سہارا لے رہی تھیں۔

اگرچہ پاکستان بالآخر سیلاب کی تباہ کاریوں سے نکل جائے گا، لیکن اس کے نتیجے میں پاکستانی سیاست کو پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے لیے دہشت گردی یا دیگر غیر روایتی خطرات سے بڑا خطرہ ہے، لہٰذا پاکستان میں سیاست اور سلامتی کی گفتگو کو موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے موضوعات کی روشنی میں آگے بڑھنا چاہیے۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں محقق ہیں۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ