’اداس لمحوں میں رنگ‘: سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے آرٹ

کراچی اور کوئٹہ میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے منعقد کیے جانے والے آرٹ شوز جن کے بارے میں شرجیل بلوچ کہتے ہیں کہ ’ایک فنکار کے پاس اپنا فن پارہ ایک مہینے کا خرچہ ہوتا ہے، مگر اس کے باجود ان آرٹسٹس نے اپنا دسترخوان سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کردیا ہے۔‘

سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد زندگی کے دیگر شعبہ جات کی طرح آرٹسٹ بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کراچی میں ایک نمائش کا اہتمام کر رہے ہیں جبکہ کوئٹہ کے مجسمہ ساز اپنے مجسمہ فروخت کرکے امداد کرنے کے خواہشمند ہیں۔

’اداس لمحوں میں رنگ‘ کے نام سے 15 ستمبر سے کراچی کی اوشین آرٹ گیلری میں لگنے والی اس نمائش کا اہتمام کرنے والے آرٹسٹ شرجیل بلوچ نے انڈپینڈنٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نمائش کے لیے اب تک ملک بھر معروف آرٹسٹس نے اپنے 70 سے زائد فن پارے عطیہ کیے ہیں۔

شرجیل بلوچ کے مطابق: ’ان فنکاروں نے اپنے منتخب فن پارے عطیہ کیے ہیں جو اس نمائش میں رکھے جائیں گے، جن کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے خرچ کی جائے گی۔ اس نمائش کے لیے اوشین آرٹ گیلری والوں نے جگہ بھی مفت مہیا کی ہے۔‘

’یہ سیلاب کی اب تک اس طرح کی سب سے بڑی نمائش ہے۔ ایک فنکار کے پاس ایک فن ایک مہینے کا خرچہ ہے، مگر اس کے باجود ان آرٹسٹس نے اپنا دسترخوان سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کردیا ہے۔‘

’یہ نمائش سیلاب زدگان کے ریلیف کے لیے ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس سے بھی بڑی نمائش لگائی جائے گی جس سے سیلاب زدگان کی مستقل بحالی اور ان کے گھروں کی ازسر نو تعمیر کے لیے رقم جمع کی جائے گی۔‘

دوسری جانب کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مجسمہ ساز اسحاق لہڑی جنہوں نے ایک ماہ قبل بلوچستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی 100 مشہور شخصیات کے مجسمے بنانے شروع کیے، وہ ان کی ممکنہ نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجسمے بنانا جیسے ہی شروع کیے تو اس دوران بلوچستان اورملک بھر میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جس کے بعد سیلاب نے بہت سے علاقوں کو لپیٹ میں لے کر وہاں کے لوگوں کو بے گھر کردیا۔ 

اسحاق لہڑی نے بتایا کہ ’میرا مقصد یہ تھا کہ میں ان سو لوگوں کو خراج تحسین پیش کروں جنہوں نے کسی نہ کسی طرح یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ کیا ہے۔‘

اسحاق کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ سلسلہ ایک مہینہ پہلےشروع کیا۔ پھر بارشیں شروع ہو گئیں اور سیلاب آ گیا۔ اس لیے میں نے جو ابتدائی طور پرکچھ مجسمے بنائے تھے، فیصلہ کیا کہ ان کو نیلام کرکے ان کے پیسے سیلاب زدگان کے فنڈز میں جمع کروں گا۔‘

اسحاق نے بتایا کہ وہ اب تک آٹھ مجسمے بنا چکے ہیں۔ مزید چار پانچ پائپ لائن میں ہیں۔

انہوں نے بتایا چوں کہ یہ پورٹریٹ کی طرح کے مجسمے ہیں اس لیے میں جلدی جلدی بنانے کی کوشش کررہا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ 20 سے 25 بنا لوں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’ابتدائی طورپر ان لوگوں کے مجسمے میں بنائے ہیں جو سیاسی رہنما ہیں۔ ان میں سردار عطااللہ مینگل ، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، بالاچ نوشیروانی، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر حئی بلوچ اور میر غوث بخش بزنجو کا مجسمہ تیاری کے مراحل میں ہے۔‘

اسحاق نے کہا کہ اس کے بعد میں فیض احمد فیض، حبیب جالب ، ڈاکٹر روتھ فاؤ کا مجسمہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا مقصد ہے کہ جو ان رہنماؤں کے چاہنے والے ہیں وہ ان مجسموں کو خریدیں اور جو پیسے ہمیں مل جائیں وہ ہم ان سیلاب زدگان پر خرچ کریں۔

اسحاق کا کہنا تھا کہ مشکل یہ ہے کہ جب آپ بڑا کام کرتے ہیں تو سٹوڈیو یا کسی بھی جگہ کا کرایہ پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کام اتنا ہوتا نہیں ہے۔

اسحاق نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ اب میں یہ کام گھر میں کررہا ہوں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس طرح جولوگ یہ کام کر رہے ہیں پذیرائی نہ ملنے پر وہ بھی کچھ عرصے کے بعد اس کو چھوڑ دیں گے۔ ہمیں اکثر یہی مشورہ دیا جاتا ہے کہ یہ کام شرعی طور درست پر نہیں ہے۔ اس لیے ترک کردیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ