صوبہ پنجاب میں سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سیاسی صورت حال عدم استحکام کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کی دوڑ ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پرویز الہیٰ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت سے وزیراعلیٰ تو بن گئے لیکن ن لیگ پنجاب میں ایک بار پھر اپنا وزیراعلیٰ لانے کے لیے سرگرم ہے۔
اگرچہ تحریک انصاف حکومت کی تبدیلی کو پنجاب میں ممکن نہیں سمجھ رہی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی پنجاب میں فوری تبدیلی کی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی مگر کوششیں ضرور جاری ہیں۔
ن لیگ کے مطابق حکومت میں واپسی کی تیاری تو ہو رہی ہے مگر پرویز الہیٰ کی طرف دیکھا جا رہا ہے کہ وہ عمران خان کے ’فوج مخالف‘ بیانیے پر کب تک ان کے ساتھ کھڑے ہو سکیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چیئرمین پی ٹی آئی نے پنجاب سے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کیا تو پی ڈی ایم فوری تبدیلی کی طرف جا سکتی ہے مگر چوہدری شجاعت حسین کے چوہدری پرویز الہیٰ سے اختلاف کم ہونے پر نئی سیاسی صورت حال بھی سامنے آ سکتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم ابھی تک واضح دکھائی نہیں دیتی کہ موجودہ حکومت یا آنے والی نئی حکومت کومضبوط سمجھا جا سکے لہذا اقتدار کے حصول کی رسہ کشی جاری رہنے کا امکان بھی موجود ہے۔
پرویز الہیٰ کو ہٹانے کی تیاریاں کتنی موثر ہوسکتی ہیں؟
تحریک انصاف پنجاب کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر یاور بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پرویز الہی کی وزارت اعلیٰ اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ انہیں جو اکثریت حاصل ہے اسے کم نہیں کیا جا سکتا۔‘
یاور بخاری کے بقول ’اسلام آباد میں چند دن پہلے پنجاب کے اراکین اسمبلی کا اجلاس ہوا ہے جس میں 160 سے زیادہ اراکین شریک ہوئے جن میں جنوبی پنجاب کے تمام اراکین بھی موجود تھے۔‘
ان کے مطابق ’پی ٹی آئی کی تعداد تو 176 ہے مگر بعض اراکین ملک سے باہر ہیں یا ہنگامی مصروفیات کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے، اس لیے اسے غیر حاضر اراکین کا عدم اعتماد نہ سمجھا جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر گورنر پنجاب پرویز الہیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے بھی تو ہماری برتری برقرار رہے گی۔‘
ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں تبدیلی کی حکمت عملی بنائی ضرور جا رہی ہے لیکن اس پرفوری عمل درآمد کا فیصلہ نہیں کیا، ایوان میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ کو 176اور ن لیگ کو 168اراکین کی حمایت حاصل ہے تو ہمیں صرف آٹھ ارکان درکار ہیں جن سے بات چیت ہو رہی ہے۔‘
ان کے بقول ’اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں جو نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے اس کے فیصلہ کا بھی انتظار ہے۔ امید ہے سپریم کورٹ ہمارے موقف کو تسلیم کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ویسے ہی حکومت تبدیل ہو جائے گی۔‘
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں حکومت کی تبدیلی تو طے ہے لیکن ہم مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس طرح عمران خان فوج کے ادارے پرتنقیدی حملے کر رہے ہیں کیا پرویز الہیٰ بھی اس بیانیے کا ساتھ دیں گے اور کب تک دیں گے؟‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماری تیاری جاری ہے، اپوزیشن کا حق ہوتا ہے کہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپنا حق استعمال کرے۔‘
کیا پرویز الہیٰ کی ’بیلنس پالیسی‘ کامیاب ہوگی؟
سینئیر تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے اس تاثر کو غیر موثر قرار دیا کہ چوہدری پرویز الہیٰ حکومت کو کوئی فوری خطرہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق ’چوہدری پرویز الہیٰ اور چوہدری شجاعت کے درمیان برف پگھل چکی ہے اور ان میں اختلافات پہلے جیسےشدید نہیں رہے۔ دوسرا یہ کہ جیسے وہ بطور سپیکر دونوں طرف بہتر رویہ اپناتے رہے اب حکومت میں آکر بھی وہی بیلنس پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔‘
سلمان غنی نے مثال دی کہ 25 مئی لانگ مارچ سے متعلق پولیس افسران کے خلاف یا ن لیگی رہنماؤں کے خلاف سیاسی بیانات کے علاوہ موثر کارروائی دکھائی نہیں دی۔ وہ بھی پی ٹی آئی کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے بیانات دیے مگر پرویز الہیٰ نے اس معاملہ میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کیا۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے وفاقی حکومت کے خلاف کوئی محاذ نہیں کھولا اور مسلسل فوجی سربراہ اور ادارے کے سے اظہار یکجہتی کے بیان دے کر عمران خان کے بیانیے سے اظہار لاتعلقی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر عمران خان نے ان پر دباؤ بڑھایا تو ان کے پاس پی ڈی ایم قیادت سے مل کر اقتدار میں رہنے کا امکان بھی موجود ہے۔ جس کے لیے چوہدری شجاعت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
’لہذا کچھ عرصے تک پرویز الہیٰ عہدے پر قائم رہ سکتے ہیں مگر عام انتخابات سے پہلے ن لیگ اپنے گڑھ پنجاب میں ہرصورت حکومت حاصل کرے گی تاکہ اپنی مرضی سے انتظامی عہدوں پر تقرر و تعیناتیاں کر سکے اور اپنے اراکین کوحلقوں میں کام کرنے کے فنڈز جاری کر سکے۔‘
پنجاب اسمبلی کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے صحافی گوہر بٹ کا کہنا ہے کہ ’سابق صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف کے قریبی حلقوں کے مطابق پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی نام زدگی کا اختیار چوہدری شجاعت حسین کو دیا گیا ہے لیکن شرط رکھی گئی ہے کہ یہ نام زدگی چوہدری پرویز الہیٰ کے علاوہ ہو گی۔‘
ن لیگ کے رہنماؤں کے مطابق ’اکتوبر کے پہلے ہفتے تک پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا عمل شروع ہو سکتا ہے اور اگرپی ٹی آئی نے فوری لانگ مارچ کی کال دے دی تو یہ عمل جلدی بھی شروع ہوسکتا ہے کیوں کہ اگر پنجاب میں پی ڈی ایم کی حکومت نہ ہوئی تو لانگ مارچ کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔‘