والدین نے شدید بیمار پانچ سالہ بچی کی جان بچانے کی مہم کا آغاز کر دیا

تفیدا رقیب پانچ ماہ سے کوما میں ہے، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے مزید آپریشن کرنا بیکار ہے اور اسے لائف سپورٹ سے ہٹا دیا جائے۔

اس سال فروری میں تفیدا رقیب دماغ کی رگ پھٹنے کے بعد کومے میں چلی گئی تھیں۔ انہیں رائل لندن ہسپتال میں رکھا گیا ہے (پی اے)

برطانیہ میں ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ شدید بیمار پانچ سالہ بچی تفیدا رقیب کو مرنے دیا جائے جس کے بعد والدین نے بچی کی سانس بحال رکھنے کے لیے لگائے گئے آلات ہٹانے کے فیصلے کے خلاف قانونی جنگ شروع کر دی ہے۔

اس سال فروری میں تفیدا رقیب دماغ کی رگ پھٹنے کے بعد کومے میں چلی گئی تھیں۔ انہیں رائل لندن ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔

طبی ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تفیدا کے دماغ کے مزید آپریشن بے کار ہیں اور انہوں نے سفارش کی ہے کہ بچی کو زندہ رکھنے والے آلات ہٹا دیے جائیں۔

تاہم تفیدا رقیب کا خاندان پھر بھی سمجھتا ہے کہ بچی کو مزید وقت دیا جائے تو وہ زندگی کی طرف لوٹ سکتی ہے۔ بچی کا خاندان انہیں مزید علاج کے لیے اٹلی میں بچوں کے ہسپتال میں لے جانا چاہتا ہے۔

بچی کی 39 سالہ والدہ شلینا بیگم، جو پیشے کے اعتبار سے سالیسیٹر ہیں، اور 45 سالہ والد محمد رقیب نے منگل کو ہائی کورٹ میں دستاویزات جمع کرائی ہیں جن میں ان کی بیٹی کے معاملے میں نظرثانی کی درخواست کی گئی ہے۔

بچی کی والدہ نے کہا: ’اس وقت ہماری بیٹی کی حالت ٹھیک ہے، ہسپتال کے معاملے میں بھی سب کچھ درست ہے لیکن ہم بچی کو بہترین موقع فراہم کرنے کے لیے اٹلی لے جانا چاہتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ دو سال پہلے چارلی گارڈ نامی برطانوی بچے کے والدین نے بڑی عدالتی جنگ لڑی تھی۔ چارلی گارڈ ایک غیرمعمولی جینیاتی بیماری میں مبتلا تھے اور ان کے والدین انہیں ایک تجرباتی علاج کے لیے امریکہ لے جانا چاہتے تھے۔

بچے کے والد کرس گارڈ اور والدہ کونی ییٹس کا مؤقف تھا کہ ان کے بیٹے کے بچ جانے کے امکانات موجود ہیں لیکن جولائی 2017 میں بچے کی سانس بحال رکھنے کے آلات ہٹا لیے گئے تھے۔ اس سے پہلے ججوں نے فیصلہ دیا تھا کہ بچے کو وقار کے ساتھ مرنے دیا جائے۔

مشرقی لندن کے علاقے نیوہام سے تعلق رکھنے والی شلینا بیگم نے تفیدا رقیب کے لیے ایک پٹیشن بھی شروع کی ہےجس میں رائل لندن ہسپتال پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بچی کو ان کے حوالے کر دے۔

بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ شریانوں میں پیدا ہونے والی خرابی کی وجہ دماغ کو پہنچنے والے نقصان سے پہلے تفیدا صحت مند تھیں۔

پٹیشن کے مطابق: ’9 فروری کو تفیدا رقیب گھر میں گر گئیں۔ انہیں دل کا دورہ پڑا اور سانس اکھڑنے لگی۔‘

’بچی کو فوری طور پر مقامی ہسپتال لے جایا گیا اور بعد میں دماغ کے آپریشن کے لیے دوسرے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ دماغ کے آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے خاندان کو بتایا کہ پہلے 48 گھنٹے سے ایک ہفتہ بچی کے لیے بہت نازک ہوگا لیکن جیسا کہ ہماری بیٹی بڑے حوصلے کی مالک ہے اس نے صورت حال کا مقابلہ کیا۔‘

اس میں مزید لکھا ہے کہ پانچ ماہ بعد تفیدا میں بہتری کے کچھ آثار نظر آنے لگے جن میں ’درد پر رد عمل کا اظہار، ہاتھوں پیروں میں حرکت اور آنکھیں کھولنا اوربند کرنا شامل ہے۔‘

بچی کا خاندان کہتا ہے کہ ڈاکٹروں کی طرف سے ابتدا میں انہیں بتایا گیا تھا کہ تفیدا چند ماہ بعد میں گھر جانے کے قابل ہو جائیں گی اور ان کی مکمل بحالی کا عمل جاری رہے گا۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے: ’تاہم اب ڈاکٹروں کا ذہن تبدیل ہو گیا ہے اور وہ بچی کی زندگی ختم کرنے کے لیے سانس بحال رکھنے کے لیے لگائے گئے آلات ہٹانا چاہتے ہیں۔‘

’تفیدا کے والدین بہت پریشان ہیں کیونکہ وہ دیکھ چکے ہیں کہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ان کی بیٹی کی حالت پانچ ماہ میں بہتر ہوئی ہے۔ اور اس لیے انہوں نے استدعا کی ہے کہ ان کی بیٹی کو زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔‘

’بدقسمتی سے اس استدعا پر کان نہیں دھرا گیا۔ اس لیے ان کی خواہش ہے کہ ان سے جو بن پڑے وہ کریں۔ انہوں نے بیٹی کا بیرون ملک علاج کے مواقعے تلاش کیے۔‘

’انہیں ایک یورپی ہسپتال مل گیا ہے جو تفیدا کا علاج جاری رکھنے پر تیار ہے لیکن رائل لندن ہسپتال بیٹی کو خاندان کے حوالے کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ہم ہسپتال سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ پانچ سالہ بچی کو زندگی کی طرف واپس آنے کا موقع دے اور انہیں اس ہسپتال میں منتقل کرنے کی اجازت دے دی جائے جو ان کا علاج جاری رکھنے پر تیار ہے۔‘

منگل کی شام سے برطانوی پارلیمنٹ کے نام لکھی گئی پٹیشن پر چھ ہزار سے زیادہ دستخط ہو چکے ہیں۔

رائل لندن ہسپتال کا انتظام ’بارٹس ہیلتھ این ایچ ایس ٹرسٹ‘ کے پاس ہے۔ ٹرسٹ نے کہا: ’یہ بہت افسوسناک معاملہ ہے۔ ہم متاثرہ بچی کے خاندان کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ اس کی مدد کی جا سکے۔‘

’تفیدا رقیب کی دیکھ بھال کرنے والے ہمارے ماہرین نے اضافی طور پر لندن میں کسی جگہ خود مختار طبی ماہرین سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد طے کیا ہے کہ بچی کا مزید آپریشن کرنا بے کار ہے۔‘

’ایسی صورت حال میں ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے بچی کے خاندان کو اعتماد میں لیا ہے اور بچی کے بہترین مفاد کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ ہم سانس برقرار رکھنے کے لیے لگائے آلات ہٹانے کی سفارش کر رہے ہیں۔‘

 

اس رپورٹ میں پریس ایسوسی ایشن کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔ 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت