مریم نواز، کیپٹن صفدر ایون فیلڈ ریفرنس میں بری

احتساب عدالت نے اسی ریفرنس میں مریم نواز کو آٹھ سال سزا اور کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزاؤں کے خلاف اپیل پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔

احتساب عدالت نے اسی ریفرنس میں مریم نواز کو آٹھ سال اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

جولائی 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ہی سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی 11 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں 19 ستمبر 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

جمعرات کو مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزاوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔

مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر لیگی رہنماؤں کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔

سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے نیب سے کہا کہ الزام لگا دینا ایک الگ چیز ہوتی ہے لیکن آپ ان پر لگائے گئے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

نیب کی جانب سے گذشتہ سماعت پر دلائل دینے والے پراسیکیوٹر عثمان جی راشد آج پیش نہیں ہوئے اور ریفرنس میں پہلے دن سے کیس کی پیروی کرنے والے سردار مظفر نے دلائل مکمل کیے۔

اپیلوں میں مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے دلائل گذشتہ سماعت پر مکمل کر لیے تھے، جبکہ نیب کے دلائل باقی تھے۔

’کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی جو نواز شریف یا مریم نواز کا پراپرٹیز سے تعلق جوڑے‘

سماعت کے دوران وکیل سردار مظفر نے پاناما کیس جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا تو جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’واجد ضیا کا کردار تو جے آئی ٹی میں تفتیشی کا تھا۔ واجد ضیا نے تو بیان میں ساری اپنی رائے دی ہے۔ میں نے کبھی کسی تفتیشی کا ایسا بیان نہیں دیکھا۔‘

سردار مظفر نے عدالت کو جواب دیا کہ واجد ضیا عدالت میں بطور تفتیشی نہیں بطور نیب گواہ آئے تھے۔ واجد ضیا نے یہ سارا ریکارڈ خود دیکھا تھا۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ واجد ضیا کا یہ بیان اور سارا مواد پراسیکیوشن کا کیس کیسے ثابت کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا تفتیشی افسر نے دستاویزات پر کوئی تفتیش بھی کی؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کوئی ایسی چیز ابھی سامنے نہیں آئی جو نواز شریف یا مریم نواز کا پراپرٹیز سے تعلق جوڑے۔ کیا پراپرٹیز کی مالیت کا تعین کرنے والا کوئی دستاویز سامنے آیا؟ اثاثوں کےکیس میں مریم نواز کا نواز شریف سے لنک کیا ہے؟ دیانتداری سے کہیں تو ابھی تک کوئی لنک آپ نے نہیں دکھایا۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے جے آئی ٹی کی ساری رپورٹ لکھ دی، خود کیا تفتیش کی؟ نواز شریف کا اس کیس کے حوالے سے موقف کیا ہے؟

سردار مظفر عباسی نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کا موقف تھا کہ ان کا اس پراپرٹی سے تعلق نہیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ ’آخری سماعت پر عثمان راشد نے کہا تھا کہ مریم نواز کا کردار 2006 سے شروع ہوتا ہے۔ ابھی آپ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز کا کردار 1993 سے شروع ہوتا ہے۔ آپ نے خود کیا تحقیق کی، وہ بتا دیں۔ جب نواز شریف کہتا ہے ان کا تعلق نہیں تو پھر آپ نے ریکارڈ سے ثابت کرنا ہے۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ’ہم نے پراپرٹی کی ملکیت ثابت کر دی ہے، مالیت غیر اہم ہے۔‘

’نواز شریف عدالت میں جواب دائر نہ کرتا تو کیس نہ بنتا‘

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’آپ غلط بات کر رہے ہیں، آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں قیمت کا تعین ضروری ہے، جو چار جملے آپ نے کہے ہیں اسی کو شواہد کے ساتھ ثابت کریں۔ سی ایم اگر فائل نہ ہوتی تو آپ کا کوئی کیس ہی نہیں تھا۔‘

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’نیب کا پورا کیس شریف خاندان کے اپنے جوابات پر بنایا گیا۔ اگر شریف خاندان سپریم کورٹ میں جواب دائر نہ کرتا تو کیس نہیں بن سکتا تھا۔‘

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نواز شریف نے پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہوئے مریم نواز کے نام پر لندن پراپرٹیز خریدیں۔‘

عدالت نے نیب سے استفسار کیا کہ آپ نے کہاں ثابت کیا کہ یہ ساری پراپرٹیز نواز شریف کی ہیں۔ اگر نواز شریف کا کردار ثابت ہو گا تو مریم کے کردار کو دیکھیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’شریف فیملی کا موقف ہے کہ دادا نے پوتے کو پراپرٹیز دیں۔ واجد ضیا نے انہی کی متفرق درخواست کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنا دیا۔ تفتیشی نے ان کے اس موقف کو غلط ثابت کرنا تھا۔ پراسیکیوشن نے یہ ثابت کرنا تھا کہ اصل ملکیت نواز شریف کی ہے۔ تفتیشی ایجنسی نے تفتیش کر کے حقائق سامنے لانے تھے۔ وہ دستاویزات دکھا دیں کہ جن سے پراپرٹی ٹریل ’یہ ہیں وہ ذرائع‘ غلط ثابت ہو۔‘

عدالت نے سماعت مکمل ہونے پر کچھ دیر میں فیصلہ سنانے کا اعلان اور بعد ازان مختصر فیصلہ سناتے ہوئے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو بری کر دیا۔

عمران خان کو جھوٹ اور بہتان کا جواب دینا ہوگا: مریم نواز

مریم نواز نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کی اور کہا: ’آج اللہ نے مجھےاور میرے والد کو سرخرو کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ ’اس شخص کو ضرورکہنا‘ چاہتی ہی جس نے ان پر اور ان کے والد پر الزام لگائے اور سازش کی مگر ’اللہ نے سرخرو کیا۔‘

مریم نواز نے کہا کہ انہوں نے چھ سال جھوٹ برداشت کیا۔ عمران خان کو جواب دینا ہوگا کہ اس نے جھوٹ اور بہتان کیوں لگائے۔

مریم نواز نے کہا کہ جب مانامہ سکینڈل سامنے آیا تو سب نے نواز شریف کو کہا کہ یہ انتقامی کارروائی ہے اور ان کی بات نہیں سنی جائے گی مگر انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی بیٹی اور خاندان اس معاملے میں عدالتوں میں پیش ہوں گے۔  

انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے آڈیو لیک سے متعلق کہا کہ ان کو اس بات پر ذرا بھی حیرانگی نہیں ہے کیونکہ ’اس شخص نے ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈالا۔‘

انہوں نے کہا عمران خان نے جعل سازی کی بنیاد پر پاکستان کے اداروں کو متنازع بنایا۔

اپنے داماد سے متعلق آڈیو لیک پر انہوں نے کہا: ’شرم تو عمران خان کو آنی چاہیے کہ میرے داماد کی مشینری تو ان کے دور میں آئی تھی۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے داماد نے کوئی ناجائز کام نہیں کیا۔

اپنے الیکشن لڑنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اس کا فیصلہ کرے گی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ بہتان بازی اور جھوٹ کا پلندہ گر گیا اور مریم نواز کا بری ہونا ’نام نہاد احتساب کے نام پر ایک طماچہ ہے۔‘

 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست