کیا سیاسی رہنماؤں کو تعلیمی اداروں کا دورہ کرنا چاہیے؟

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ایڈورڈز کالج کے دورے پر کچھ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں لیکن بعض ناقدین اس پر تنقید کر رہے ہیں۔

اس سے پہلے بھی عمران خان کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یونیورسٹی) لاہور کے دورے پر تنقید کی جا رہی ہے اور حکومت نے اسی سلسلے میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے وضاحت طلب کی ہے(اے ایف پی)

سابق وزیراعظم عمران خان کے جی سی یو لاہور کے دورے پر اٹھنے والا تنازع ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے طلبہ سے خطاب کے لیے پشاور کے ایڈورڈز کالج کا دورہ کیا۔

ایڈورڈز کالج پشاور کو پاکستان کی تاریخی درس گاہوں میں شمار کیا جاتا ہے جس کی بنیاد سنہ 1900 میں چرچ مشن سوسائٹی نے رکھی تھی۔

مختلف سیاسی اور سماجی شخصیات ماضی میں مغل طرز تعمیر پر بنے اس کالج کا دورہ کر چکی ہیں جبکہ کئی معروف شخصیات بھی اسی کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔

1933 میں کانگریس کی معروف شخصیت اور انگریزوں کے خلاف برسرپیکار مہاتما گاندھی پشتون قوم پرست رہنما خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کے ہمراہ اس کالج کے دورے پر آئے تھے۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو، پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ نظام الدین سمیت قائداعظم محمد علی جناح نے بھی تین مرتبہ اس کالج کا دورہ کیا۔

ابتدائی دنوں میں ایڈورڈز کالج 1950 تک پنجاب یونیورسٹی سے منسلک تھا اور اس کے بعد اس کالج نے یونیورسٹی آف پشاور سے الحاق کر لیا۔

عمران خان کا دورہ ایڈورڈز کالج

 تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ایڈورڈز کالج کے دورے پر کچھ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں لیکن بعض ناقدین سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں کسی سیاسی شخصیت کو نہیں جانا چاہیے کیونکہ ان کے مطابق تعلیمی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

اس سے پہلے بھی عمران خان کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (جی سی یونیورسٹی) لاہور کے دورے پر تنقید کی جا رہی ہے اور حکومت نے اسی سلسلے میں جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے وضاحت طلب کی ہے۔

سینیئر صحافی اسماعیل خان جو خود ابھی اس کالج کے طالب رہ چکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم جس وقت ایڈورڈز کالج میں پڑھتے تھے تو گورنر بطور چانسلر کالج کا دورہ کرتے تھے لیکن ہم نے سیاسی رہنماؤں کو اس قسم کے دورے اور کالج میں تقریر کرتے نہیں دیکھا۔‘

اسماعیل خان کہتے ہیں کہ ’میں کسی سیاسی رہنما کے تعلیمی اداوں کے دورے کے خلاف نہیں ہوں تاہم یہ دورہ کسی خاص شخصیت تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو یہ پلیٹ فارم مہیا کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے سیاسی رہنما کی تقریر کے موضوع کے بارے میں کہا کہ ’عموماً تو ایسا ہونا چاہیے کہ انتظامیہ کسی خاص موضوع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کرے اور سب کو اس موضوع پر اپنے رائے پیش کرنے کا موقع دے اور پھر فیصلہ سننے والوں کو کرنے دیں کہ کس رائے کو قبول کرتے ہیں۔‘

اسماعیل خان نے بتایا کہ ’ملک میں سیاسی ماحول ویسے بھی گرم ہے اور اس ماحول میں کسی مخصوص سیاسی شخصیت کو مدعو کرنا میرے خیال میں اچھا فیصلہ نہیں ہے۔ کالج کے سینیئر اساتذہ نے بھی اس دورے پر تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔‘

ان کے مطابق ’آج اگر ایک طلبہ تنظیم نے اس کالج میں اپنے سیاسی رہنما کو مدعو کیا ہے تو کل دوسری طلبہ تنظیم اپنے قائد کو مدعو کرے گی جس سے کالج کی ساکھ خراب ہو سکتی ہے۔‘

 پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دورہ ایڈورڈز کالج کی ردعمل میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ٹوئٹر پر ایک صارف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر عمران خان آسکتے ہیں تو آئیں۔ چار اکتوبر کو اسی کالج میں دورے کی تیاری کریں، پھر وہاں ملیں گے۔‘

ایمل ولی خان نے لکھا کہ ’عمران خان کس حیثیت میں کالج کا دورہ کر رہے ہیں۔ انتظامیہ کو میرا یہ پیغام ہے کہ اگر وہ دورہ کر سکتے ہیں تو پھر مجھے بھی کوئی نہیں روک سکتا اور چار اکتوبر کو کالج میں طلبہ میرا انتظار کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سینیئر صحافی و تجزیہ کار رفعت اورکزئی جو گذشتہ دو دہائیوں سے خیبر پختونخوا کی سیاست کو کور کر رہے ہیں، نے بتایا کہ ’کالج کے طلبہ کا ذہن اتنا میچور نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی سیاسی رہنما کا سیاسی مخالفین کے خلاف باتیں کرنا طلبہ کی ذہنوں پر اچھا اثر نہیں کرتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جی سی یونیورسٹی کی تقریر کی کچھ حصے میں سن چکا ہوں۔ وہ بالکل ایک سیاسی تقریر تھی اور اس کا طلبہ کو کوئی فائدہ نہیں۔‘

ان کے مطابق ’دوروں پر کوئی پابندی نہیں ہونے چاہیے لیکن وہاں کسی بھی سیاسی رہنما کو سیاسی تقاریر نہیں کرنے چاہیے بلکہ ان کو بہتر مستقبل کے لیے بات کرنی چاہیے اور ان کو تعلیمی میدان میں محنت پر زور دینا چاہیے۔‘

رفعت نے بتایا کہ ’تعلیمی اداروں میں سیاسی تقاریر سے طلبہ میں انتشار پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں تمام طلبہ اس سیاسی رہنما کے حمایتی نہیں ہوتے بلکہ ہر ایک طالب علم کی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت اور رہنما ہوتا ہے۔‘

رفعت کہتے ہیں کہ ’اگر سیاسی رہنما کا دورہ کسی تعلیمی مقصد کے لیے ہے جس سے طلبہ کی تعلیمی میدان میں کوئی رہنمائی ہوسکتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن تعلیمی اداروں میں سیاسی تقاریر کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست