کیا ہندوستان بدل رہا ہے؟

بھارت میں آباد تقریبا بیس کروڑ مسلمان ہندتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور آئے دن کے حملوں سے دہشت کا شکار ہو رہے ہیں۔ 

یوگا، علاج و معالجہ کے لے ہندو طریقہ علاج اور قدیم زبانوں کو فروغ دیے جانے کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے ہندو راشٹر کی بنیادیں بنائی جا رہی ہیں۔(اے ایف پی)

تبدیلی کوئی بری چیز نہیں اگر اس کا مقصد وقت کے تقاضوں کو پورا کرنا ہو، نئے چیلنجوں سے نمٹنا ہو یا پھر ٹیکنالوجی کے ساتھ نئی سوچ کو ہم آہنگ بنانا ہو۔ اگر سوچ بدلنے کا مقصد ملک میں اقلیتوں کو ہراساں کرنا ہو، انہیں اپنی کمتری کا احساس دلانا ہو اور انہیں ایک خاص سانچے میں ڈال کر ان پر ایک لیبل چسپاں کرکے ڈرانا یا دھمکانا ہو تو اس کو بدلاو کہنا صیح نہیں بلکہ اس کو ایک ایسی پالیسی کے نفاذ سے تعبیر کرنا چاہیے جس کا مقصد اکثریت کی بالادستی اور اقلیت کی پستی قائم کرنا ہے۔

دنیا بدل رہی ہے، قومیں بدل رہی ہیں، تاج و تخت تغیر پذیر ہو رہے، امرا اور غربا میں خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے مگر موجودہ دور میں جس طرح سے مسلمانوں کو بدلا جا رہا ہے اس کی نظیر شاید تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ چاہے مشرق وسطیٰ ہو جہاں عراق سے لے کر شام تک مسلمانوں کی بستیاں، ادارے اور حکومتیں زمین بوس ہو رہی ہیں یا افغانستان سے لے کر برما تک لاکھوں مسلمان ہلاک ہو رہے ہیں، بےگھر کئے جا رہے ہیں۔ بعض مفتیوں کی اس رائے پر یقین کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ جیسے پوری دنیا مسلمانوں کی دشمن بن چکی ہے۔ حالانکہ ہمیں اس کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ خود مسلمان بھی اپنی پستی حالت کے ذمہ دار ہیں۔

اب بھارت کی مثال لیجے جہاں مسلمان تقسیم ہند کے بعد سے ہی اپنی زندگی مشکلات میں بسر کر رہے تھے لیکن اب نہ صرف وہ شدید مشکلات سے دوچار ہیں بلکہ موجودہ حالات میں ہر لمحہ زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان  میں آج کل مسلمانوں کی خوراک بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کبھی ان کی پوشاک پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، کبھی ان کی نماز نشانہ بن رہی ہے، تو کبھی ان کے مدرسے عتاب سے گزر رہے ہیں۔ غرض ہر مسلمان غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ جہاں انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔

بھارت میں آباد تقریبا بیس کروڑ مسلمان ہندتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور آئے دن کے حملوں سے دہشت کا شکار ہو رہے ہیں۔ 
کبھی کسی مسلمان کو سر راہ پکڑ کر جے شری رام کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کبھی پارلیمان میں مسلم اراکین کی تقریر کے وقت ’وندے ماترم‘ کے نعرے بلند کے جاتے ہیں تو کبھی ’لو جہاد‘ کے نام پر مسلمان لڑکوں کو جیل میں بند کیا جاتا ہے۔ اب حالت یہ ہونے لگی ہے کہ مسلمان اپنا نام کہنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔

ملک میں جاری اس لہر سے مسلمان اور دوسری اقلیتیں انتہائی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کی نہ کوئی قیادت ہے، نہ کوئی آواز اور نہ کوئی ملک اُف کر رہا ہے۔ ہر کوئی ان سے لاتعلق سا محسوس کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی آئین کی بنیاد اب بھی سیکولرازم ہے جس کے سائے تلے برصغیر کے بٹوارے کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے بھارت میں رہنے کو ترجیح دی اور پاکستان کو ٹھکرایا۔ لیکن آج بیشتر مسلمان  اپنے اس فیصلے پر نادم دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ جس ملک کو انہوں نے گلے لگایا تھا وہ اب ان کے گلے کا طوق بن رہا ہے۔

گذشتہ 70 برسوں میں سیکولرازم کی آڑ میں گو کہ مسلمانوں کا بڑا استحصال ہوا ہے اور ان کی قیادت کے ساتھ ساتھ ان کو بہتر زندگی کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہے مگر 30 فیصد اقلیتوں کے لیے جو حالات اب پیدا کئے جا رہے ہیں وہ کسی مخدوش صورتحال کا عندیہ دیتے ہیں۔

بقول سیاسی مبصرین ’بھارت میں ہندو کٹر پرستی، جس کو ملک کی بڑی آبادی چند برس پہلے تک حقارت سے دیکھتی تھی اب بیشتر گھروں میں سرایت کر چکی ہے۔ سکولوں یا کالجوں میں ایسی سوچ پیدا کرنے کی باضابطہ تعلیمی پالیسی شروع کی جا رہی ہے۔ انتظامیہ میں کٹر ہندو سوچ کےافسروں کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ یوگا، علاج و معالجہ کے لے ہندو طریقہ علاج اور قدیم زبانوں جیسے پراکرت، پالی کو فروغ دیے جانے کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سے ہندو راشٹر کی بنیادیں بنائی جا رہی ہیں۔‘

بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے راشٹریہ سویم سیوک کے پروگرام کے تحت بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا عہد کیا ہے جس کی شروعات بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کی سنگ بنیاد سے ہوئی ہے جب 1992 میں پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن اب لگتا ہے کہ اس مہم میں تیزی لا کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا ایک منظم سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں جھارکھنڈ میں جواں سال تبریز انصاری کو ہندوؤں نے سات گھنٹے تک مار مار کے جان نکالی جس پر ایک ہندو لڑکی رچا بھارتی نے مذہبی جنونیت کے حق میں ایک ٹویٹ کیا۔ ٹویٹ کے بعد ان پر کیس دائر ہوا۔ مقامی حج نے مذہبی رواداری نہ دکھانے کے لیے لڑکی کو سزا کے طور پر علاقے میں پانچ قرآن تقسیم کرنے کی سزا سنائی۔ جس پر ہندوؤں نے اتنا ہنگامہ برپا کیا کہ جج کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہونا پڑا۔

یہ قصہ دراصل اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو ہندوستان کی رگ رگ میں سرایت کرچکی ہے۔ اس پر بعض سیکولر دانشور یا اعتدال پسند سیاستدان پردہ ڈالنے کی کتنی بھی کوششیں کریں یہ چھپائے نہیں چھپ سکتا۔

.  انسانی حقوق کے بعض عالمی اداروں نے مسلمانوں یا دوسری اقلیتوں پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف آواز بھی اٹھائی مگر یہ ایک ایسا طوفان لگ رہا ہے جس کی لہروں نے ایک ارب ہندوؤں کے ذہنوں کو ایسے جکڑ لیا ہے کہ انہیں ہر مسلمان میں صرف اسامہ بن لادن نظر آ رہا ہے اور مسلمان اس سیلاب سے بچنے کے لیے ایک مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر