فرانس میں مقیم قانون کے ایک پروفیسر ڈاکٹر عثمان روستار نے اپنے دورہ افغانستان اور طالبان رہنما ملا ہبت اللہ اخونزادہ سے ملاقات کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
انہوں نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ وہ یورپ میں طالبان کی حمایت کرنے والے ایک افغان گروپ کی درخواست پر ان کے وفد کے سربراہ کے طور پر افغانستان گئے تھے۔
تاند ویب سائٹ کے رپورٹر جمال افغان کے مطابق ڈاکٹر عثمان نے طالبان کے رہنما ملا ہبت اللہ اخونزادہ سے قندھار میں دیگر طالبان حکام کے ساتھ ملاقات کی اور افغانستان کی موجودہ صورت حال پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر عثمان کا کہنا ہے کہ 55 سالہ ملا ہبت اللہ خود سے منسوب اور شائع شدہ تصاویر سے بہت ملتے جلتے نظر آتے تھے جسمانی طور پر مضبوط اور صورت حال پر قابو رکھتے تھے۔
ان کے مطابق پہلے تو انہیں صرف ملنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن بعد میں ان کی درخواست پر ایک اور دوست کو بھی اس دورے میں شرکت کی اجازت دے دی گئی۔
ڈاکٹر عثمان کا کہنا تھا کہ ملا ہبت اللہ کے محافظوں نے ان کی تلاشی نہیں لی لیکن ان کے دوست کی تلاشی کے ساتھ ساتھ سکیورٹی خدشات کے باعث ان کی عینکیں بھی لے لی گئیں۔
یورپ میں مقیم اس افغان سکالر نے تاند ویب سائٹ کو بتایا کہ ملا ہبت اللہ سے ان کی ملاقات میں طالبان کی وزارت کے سیاسی نائب مولوی عبدالکبیر سمیت ہبت اللہ کے تقریباً 10 مشیروں نے بھی شرکت کی۔
تاہم ملاقات کے دوران ملا ہبت اللہ کے ساتھ انہیں تصاویر لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ملک میں آئین کی تشکیل، طالبان حکومت، لڑکیوں کے بند سکول، طالبان حکومت کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو قائم کرنے کے طریقوں اور دیگر موضوعات پر ان کے مطابق ملا ہبت اللہ نے بحث کی۔
ڈاکٹر عثمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملا ہبت اللہ سے کہا کہ وہ تحفے کے طور پر لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھولنے کا حکم دیں، لیکن انہوں نے مثبت یا منفی جواب نہیں دیا اور ظاہر کیا کہ یہ فیصلہ وہ صرف اپنے طور پر نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی شوریٰ سے مشورہ کرتے ہیں۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی جب وقتاً فوقتاً طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ کی موت کے بارے میں مختلف دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد مولوی ہبت اللہ اخونزادہ کو 2016 میں طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا تھا۔
برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق ہبت اللہ افغان طالبان کے سابق چیف جسٹس اورمذہبی علما کانفرنس کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
مولوی ہبت اللہ کو عسکری سے زیادہ مذہبی رہنما سمجھا جاتا ہے اور وہ فوج اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے جواز کے حوالے سے طالبان کے بیشتر فتوے بھی جاری کرتے رہے ہیں۔
طالبان رہنما کے قبیلے کے بارے میں بھی ابہام ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق افغان صوبے قندھار کے ضلع پنجوانی سے تعلق رکھنے والے ہبت اللہ نورزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولوی ہبت اللہ کا تعلق اچکزئی قبیلے سے ہے، جبکہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ الوکوزئی پشتون قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ملا ہبت اللہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی میڈیا کے سامنے نہیں آئے ہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق اس کی وجہ اسلامی کے ساتھ ساتھ سکیورٹی بھی ہے۔