طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کیا واقعی قندھار میں منظرعام پر آئے تھے؟

قندھار کے جس مدرسے میں ملا ہبت اللہ نے مبینہ طور پر خطاب کیا، وہاں کے طالب علموں میں سے ایک 19 سالہ محمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس قدر خوش تھے کہ وہ ’ان کا چہرہ دیکھنا بھول گئے۔‘

پانچ سال قبل، تحریک کی باگ ڈور سنبھالنے پرطالبان نے ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کی صرف ایک تصویر جاری کی۔ تصویر میں انہیں سفید داڑھی، پگڑی اور گہری نظروں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، طالبان کے مطابق،یہ تصویر دو دہائیوں پہلے لی گئی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

طالبان کی جانب سے کابل کی فتح کو نومبر میں تین ماہ ہوگئے ہیں، مگر آج بھی یہ سوال موجود ہے کہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ زندہ ہیں یا پھر ملا عمر کی طرح ان کی موت کو چھپایا جا رہا ہے؟

اس عرصے کے دوران خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اخوندزادہ کی کھوج میں اپنی تحقیق کی، مگر نتیجہ ابھی تک ایک معمہ ہی ثابت ہوا۔

اقتدار سنبھالنے کے دو ماہ بعد 30 اکتوبر کو طالبان کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ اخوندزادہ قندھار میں ہیں، وہ زندہ اور ٹھیک ہیں۔ اس وقت افغانستان کے جنوبی شہر میں یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان امیر نے ایک مدرسے میں تقریر کی تھی۔

10 منٹ طویل ایک آڈیو ریکارڈنگ کی بنیاد پر طالبان کے عہدیداروں نے مدرسہ حکیمیہ میں ان کی موجودگی پر صداقت کی مہر لگا دی تھی۔

آڈیو میں ایک عمررسیدہ مگر گونجتی ہوئی آواز، جو کہ طالبان کے سپریم لیڈر کی بتائی جارہی تھی، میں اخوندزادہ نے کہا: ’خدا افغانستان کے مظلوموں کو اجر دے، جنہوں نے 20 سال تک کافروں اور ظالموں سے لڑائی کی۔‘

اس سے قبل ان کا عوامی پروفائل بڑی حد تک اسلامی تعطیلات کے لیے جاری کیے جانے والے سالانہ تحریری پیغامات تک محدود تھا۔

اے ایف پی کے مطابق قندھار کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک میں، کوڑے سے بھری ایک ندی اور کچرے سے بھرے راستے کے درمیان، مدرسہ حکیمیہ کے دروازے کے سامنے دو طالبان جنگجو پہرے پر کھڑے تھے۔مدرسہ حکیمیہ کی سکیورٹی کے سربراہ معصوم شکر اللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب سپریم لیڈر نے دورہ کیا تو وہ ’مسلح‘ تھے اور ’تین سیکیورٹی گارڈز‘ کے ساتھ تھے۔

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ سیل فون اور ساؤنڈ ریکارڈرز‘ کو بھی پنڈال میں لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔

اس واقعے کی گونج کے بعد سے طالبان کے حامی بڑی تعداد میں پھر سے متوجہ ہونے لگے اور اپنی تحریک کے سربراہ کے لیے ان میں نیا جذبہ بیدار ہوا۔

’چہرہ دیکھنا بھول گئے‘

طالب علموں میں سے ایک 19 سالہ محمد نے طالبان سپریم لیڈر کی آمد کے بارے میں کہا: ’ہم سب انہیں دیکھ رہے تھے اور بس رو رہے تھے۔‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ یقینی طور پر اخوندزادہ ہی تھے، محمد نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی اس قدر خوش تھے کہ وہ ’ان کا چہرہ دیکھنا بھول گئے۔‘

طالبان رہنماؤں کے لیے غائبانہ پیغامات بھیجنے اور منظر عام سے غائب رہنے کی ضرورت خاص طور پر جنگ کی آخری دہائی میں سامنے آئی، کیونکہ امریکی ڈرون حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا۔

2016 میں ایسے ہی ایک حملے میں ان کے پیشرو ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد اخوندزادہ طالبان تحریک کے سربراہ کے مقام تک پہنچ گئے۔

پانچ سال قبل، تحریک کی باگ ڈور سنبھالنے پرطالبان نے اخوندزادہ کی صرف ایک تصویر جاری کی۔ تصویر میں انہیں سفید داڑھی، پگڑی اور گہری نظروں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، طالبان کے مطابق یہ تصویر دو دہائیوں پہلے لی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولوی سعید احمد نے کہا کہ سپریم لیڈر کی حالیہ موجودگی کی خبر نے ان کی موت کے بارے میں ’افواہوں اور پروپیگنڈے‘ کو ختم کر دیا۔

دوسری جانب 13 سالہ محمد موسیٰ نے کہا کہ مدرسے آمد پر جب ان کو دور سے دیکھا تو وہ ’بالکل ویسے ہی‘ لگ رہے تھے جیسا کہ مشہور تصویر میں ہے۔

معزول کی گئی پچھلی افغان حکومت کے حکام اور بہت سے مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اخوندزادہ برسوں پہلے انتقال کر گئے تھے اور مدرسے کا یہ دورہ صرف ایک دکھاوا تھا۔

اس سے پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ طالبان نے اپنے بانی ملا عمر کی 2013 میں موت کے دو سال تک دعویٰ کیا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔

سابق حکومت کے ایک سکیورٹی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اخوندزادہ ’طویل عرصے پہلے مر چکے ہیں اور کابل پر قبضے سے پہلے ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔‘

ذرائع کا خیال ہے کہ ’تقریباً تین سال پہلے‘ وہ کوئٹہ، پاکستان میں ایک خودکش حملے میں اپنے بھائی کے ساتھ مارے گئے تھے۔

ایک علیحدہ علاقائی سکیورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ اخوندزادہ کی مبینہ موت کی ’کوئی تصدیق اور کوئی انکار نہیں کر سکتا۔‘ جب کہ پینٹاگون اور سی آئی اے نے اخوندزادہ کی موت کی افواہوں پر تبصرہ کرنے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

اخوندزادہ کون ہیں؟

قندھار کے قریب ایک وسیع بنجر ضلع پنجوائی میں، ہر کوئی اخوندزادوں کے بارے میں جانتا ہے، جو قابل احترام مذہبی ماہرین کی ایک نسل میں سے ہیں۔

طالبان کے امیر کی پیدائش اسپروان گاؤں میں ہوئی۔

ایک نوجوان جنگجو اور سپریم لیڈر کے سابق طالب علم نعمت اللہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’سوویت حملے (1979) کے وقت گاؤں میں لڑائی شروع ہوئی اور ہبت اللہ پاکستان چلے گئے۔‘

پاکستان میں اس دوران آمد پر اخوندزادہ ایک قابل احترام عالم بن گئے اور انہوں نے ’شیخ الحدیث‘ کا خطاب حاصل کیا، جو کہ پیغمبر اسلام کے اقوال کے سب سے نامور علما کے لیے مخصوص ہے۔

1990 کی دہائی کے اوائل میں، جب سوویت قبضے کے نتیجے میں جہادی روش زور پکڑ رہی تھی، اخوندزادہ، جو 30 کے لگ بھگ تھے، گاؤں واپس آگئے۔

ان کی سوانح عمری سے اقتباس کے مطابق 1996 میں طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کا عروج دیکھنے کے لائق تھا۔

مقامی مدرسہ چلانے کے بعد، وہ قندھار کی صوبائی عدالت میں جج بنے، پھر 2000 تک مشرقی افغانستان میں ننگرہار میں فوجی عدالت کے سربراہ رہے اور 2001 تک یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔

اس کے بعد اخوندزادہ کوئٹہ پاکستان آگئے۔ اسلامی قانون پر ان کی مہارت نے انہیں طالبان کے انصاف کے نظام کا سربراہ اور کوئٹہ سے گریجویشن کرنے والے جنگجوؤں کی ایک پوری نسل کا مشہور ٹرینر بنا دیا۔

طالبان کے پاکستان میں موجود ایک رکن نے بتایا کہ وہ اخوندزادہ سے تین بار مل چکے ہیں اور ان کے سپریم لیڈر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کرتے۔

ان کے بقول، وہ لینڈ لائنز پر فون کال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور خطوط کے ذریعے طالبان کے عہدیداروں سے رابطہ کرتے ہیں، جو اب حکومت میں شامل ہیں اور جن کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اخوندزادہ نے پرانی حکومت کے خلاف حتمی کارروائی سے متعلق احکامات دیے اور قندھار سے ہونے والی کارروائیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

متعدد طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی موت کا مسلسل خوف، اخوندزادہ کے منظر عام سے غائب رہنے کی وضاحت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’اگر وہ اعلان کرتے ہیں کہ اخوندزادہ نہیں رہے اور ہم ایک نئے امیر کی تلاش میں ہیں تو اس سے طالبان میں دھڑے بن جائیں گے اور داعش خراسان فائدہ اٹھا سکتی ہے۔‘

مگر طالبان کے نزدیک وہ اب بھی زندہ اور ٹھیک ہیں۔ ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ امیر ’منظم انداز میں رہنمائی کر رہے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ منظرعام پر آئیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا