اقوام متحدہ کے مطابق بڑھتے ہوئے عالمی بحرانوں نے 54 ملکوں کو ایسی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے جس میں انہیں قرضوں میں ریلیف کی اشد ضرورت ہے۔ ان ملکوں میں سری لنکا، پاکستان، تیونس، چاڈ اور زیمبیا شامل ہیں جنہیں انتہائی فوری نوعیت کے خطرے کا سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 54 ملکوں میں دنیا کی آدھی سے زیادہ غریب آبادی رہتی ہے۔
ایک نئی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ درجنوں ترقی پذیر ممالک قرضوں کے تیزی سے گھمبیر ہوتے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ کہ ’کوئی قدم نہ اٹھانے کے خطرات سنگین ہیں۔‘
یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ فوری امداد کے بغیر کم از کم 54 ممالک غربت کی سطح میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا اور’موسمیاتی موافقت اور اثرات میں کمی کے لیے اشد ضروری سرمایہ کاری نہیں ہو گی۔‘
یہ صورت حال پریشان کن ہے کیوں کہ متاثرہ ممالک ان ’ملکوں میں شامل ہیں جنہیں دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔‘
ایجنسی کی رپورٹ جو واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، عالمی بینک اور جی 20 کے وزرائے خزانہ کے اجلاسوں سے پہلے شائع ہوئی ہے اس میں فوری کارروائی کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جنیوا میں صحافیوں سے بات چیت میں یو این ڈی پی کے سربراہ ایکم سٹائنر کا کہنا تھا کہ بار بار تنبیہہ کے باوجود ’اب تک بہت کم کام کیا گیا ہے اور خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔‘
’ یہ بحران شدت اختیار کر رہا ہے اور اس کا دائرہ دنیا بھر کے درجنوں ملکوں میں ترقی کے سنگین بحران کی شکل میں پھیلنے کا خطرہ ہے۔‘
غریب اور مقروض ممالک کو مختلف شکل کے اکٹھے ہوتے معاشی دباؤ کا سامنا ہے اور بہت سے ملکوں کے لیے قرض کی ادائیگی یا نئی مالی اعانت تک رسائی ناممکن ہے۔
کمزور ممالک
یو این ڈی پی کا کہنا ہے: ’مارکیٹ کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں کیوں کہ مالی اور مالیاتی حجم میں ایک ساتھ ہوتی کمی اور کم شرح نمو پوری دنیا میں اتار چڑھاؤ کو ہوا دے رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا کہ کویڈ 19 وبائی بیماری سے متاثر ہونے سے بہت پہلے سے متاثرہ ممالک میں قرضوں کے مسائل جنم لے رہے تھے۔
ادارے کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دہائی میں قرضوں میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو مسسلسل کم اہمیت دی گئی۔‘
ان ملکوں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے کویڈ بحران کے دوران قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں دی گئی رعایت ختم ہو چکی ہے۔
وبائی امرض کے دوران جی 20 مشترکہ فریم ورک کے تحت بھاری قرضوں تلے دبے ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کی تنظیم نو کا راستہ تلاش کرنے میں مدد کے لیے مذاکرات کی رفتار بہت سست ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 54 میں سے 46 ممالک نے 2020 میں مجموعی طور پر 782 ارب ڈالر کا سرکاری قرضہ اکٹھا کیا۔ صرف یوکرین، ارجنٹائن اور ونیزویلا نے اس رقم کا ایک تہائی سے زیادہ ادا کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صورت حال تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سے 19 اس وقت قرض دینے والی مارکیٹ سے مؤثر طریقے سے باہر ہو چکے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر مزید 10 ممالک اس سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔
لوازمات کی عدم موجودگی
یو این ڈی پی کے چیف اکانومسٹ جارج گرے مولینا نے صحافیوں کو بتایا کہ تمام ترقی پذیر معیشتوں میں سے ایک تہائی نے اس دوران اپنے قرضوں کو بڑے خطرے، انتہائی قیاس آرائی پر مبنی یا نادہندہ کے طور پر دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ فوری خطرے والے ممالک میں سری لنکا، پاکستان، تیونس، چاڈ اور زیمبیا شامل ہیں۔
گرے مولینا نے کہا کہ نجی قرض دہندگان اب تک ضروری تنظیم نو کے ساتھ آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔
تاہم انہوں نے تجویز پیش کی کہ مارکیٹ کے موجودہ حالات قرضے کے معاہدے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں کیوں کہ نجی قرض دہندگان اپنی ہولڈنگز کی قدر میں 60 فیصد تک کمی دیکھ رہے ہیں۔
گرے مولینا کے بقول: ’جب ابھرتی ہوئی مارکیٹں 40 فیصد تجارت ڈالر میں کرتی ہیں تو نجی قرض دہندگان اچانک بات چیت کے لیے زیادہ کھل جاتے ہیں۔‘
’اس وقت ایسی بات چیت میں شامل ہونے کی ترغیبات موجود ہیں جہاں آپ ڈالر میں لین دین کی صورت میں 20، 15 اور 30 فیصد کی رعایت قبول کر سکتے ہیں۔‘
’اس وقت عدم موجود لوازمات قرضہ دینے والی بڑی حکومتوں کی طرف سے معاہدہ کرنے کے لیے مالی یقین دہانیاں ہیں۔‘
سٹائنر نے جو کئی بار بحران کے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہے، اس امید کا اظہار کیا کہ عالمی برادری بالآخر تسلیم کر لے گی کہ کوئی قدم اٹھانا سب کے مشترکہ مفاد میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پرہیز علاج سے بہتر اور کہیں بہتر ہے۔ عالمی کساد بازاری سے نمٹنے کے مقابلے میں کہیں سستا ہے۔‘