میاں نعیم جاوید چمڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے بڑے مینوفکچررز، ایکسپورٹرز میں شامل ہیں اور سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میری کمپنی فٹ بال، لیدر جیکٹس، گلوز، سیفٹی سامان سمیت سینکڑوں اشیا روس برآمد کرتی رہی ہے لیکن حکومتی عدم دلچسپی اور بینکنگ چینلز نہ ہونے کی وجہ سے حجم انتہائی کم ہو چکا ہے جس سے میری کمپنی کو نقصان ہوا۔‘ انہوں نے مزید بتایا
’اگر حکومت پاکستان روس سے تجارت سے متعلق واضع پالیسی بنائے اور کیش کی بجائے بارٹر ڈیل کرے تو ایک طرف مجھ جیسے سینکڑوں کاروباری حضرات کا فائدہ ہو گا اور دوسری طرف برآمدات میں اضافہ ہو گا اور ڈالر ملک سے باہر نہیں جائے گا۔‘
’اس کے علاوہ روس میں پاکستانی بینکوں کی برانچز کھولی جائیں تاکہ لین دین میں آسانی ہو سکے۔
’روس فٹ بال اور چمڑے کے سامان کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ زیادہ عرصہ سردی رہنے کی وجہ سے پاکستانی چمڑے کے ملبوسات کی بہت مانگ ہے۔
’میں اس بارے کئی مرتبہ حکومت کو تجاویز دے چکا ہوں لیکن حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے روس کو برآمدات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
’پچھلی حکومت نے کچھ کام کیا تھا جس سے حالات میں بہتری آئی تھی لیکن موجودہ صورت حال تشویش ناک ہے۔‘
اس حوالے سے لاہور چمبر آف کامرس انڈسٹری پروگریسو گروپ کے نائب صدر عبدالودود علوی نے بتایا کہ پاکستان اور روس کے تعلقات کبھی بھی زیادہ مثالی نہیں رہے۔
’پاکستانی معیشت کا زیادہ انحصار یورپ اور امریکہ پر رہا ہے۔
پاکستان کے کل قرضوں کا تقریباً 70 فیصد ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف پر مشتمل ہے۔
’اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے کندھوں پر کھڑی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔‘
عبدالودود علوی کے مطابق اس وقت بھی ملک میں معاشی بحران کی وجہ ورلڈ بینک کی طرف سے ملنے والے ممکنہ قرض میں تاخیر بتائی جا رہی ہے۔
’اگر پاکستان امریکی لابی کو چھوڑ کر روس کی لابی میں شامل ہو جاتا ہے تو روس سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے میں 10 سے 15 سال لگ سکتے ہیں، جس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ پاکستان ادھر کا رہے گا اور نہ ادھر کا۔
’ممکنہ طور پر آئی ایم ایف بھی پاکستان کو اپنے پینل سے نکال سکتا ہے۔ فیٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا فیصلہ اکتوبر میں ہونا ہے۔
’وہاں بھی پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قرض بھی انہی شرائط پر مل سکتے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہے۔
’روس کے ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کے معاہدے سے سعودی عرب بھی ناراض ہو سکتا ہے جو پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
’اس کے علاوہ روس سے تجارت کرنے کے لیے روسی مقامی شہری کو پینل میں لینا ضروری ہے۔
’جب تک روسی شہری کو معاہدے میں شامل نہیں کیا جائے گا روس میں برآمدات نہیں کی جا سکتیں۔
’ان حالات میں پاکستان کا معاشی بحران سے نکلنے کے لیے روس پر انحصار کرنا مناسب دکھائی نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانا ایک مشکل عمل ہے۔
’روس میں پاکستانی بینک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ روس پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل بینکنگ ٹرانزیکشنز تقریباً ناممکن ہو چکی ہیں۔
’روس کی سرحد پاکستان کے ساتھ نہیں ملتی۔ سخت موسم کے باعث راستوں کی بندش ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سارا سال تجارت ممکن نہیں ہو سکتی اور مطلوبہ مقامات تک سامان کی ترسیل کافی مہنگی پڑتی ہے۔
’اس کے علاوہ پاکستانی تاجر روسی زبانوں سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ ابھی تک انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ معاہدہ بھی نہیں کیا جا سکا۔
’یہی وجوہات ہیں کہ روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی تعلقات بہتری کی طرف نہیں جا سکے۔‘
پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب کسی ملک سے تجارتی حجم بڑھنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے تو درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے اور برآمدات نہیں بڑھ پاتیں۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق سال 2020 میں روس کو پاکستانی برآمدات کا حجم صرف 144 ملین ڈالر تھا جبکہ درآمدات 613 ملین ڈالرز تھیں۔
2011 سے 2020 کے درمیان روس اور پاکستان کے درمیان درآمدات میں 270 فیصد اضافہ ہوا اور درآمدات میں 24 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اگر پاکستان روس کے ساتھ برآمدات نہیں بڑھا سکتا تو ایسی تجارت کا پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی روسی صدر ولادمیر پوتن سے ملاقات پر بات کی جائے تو وہ ایک رسمی ملاقات تھی۔
اس کے مثبت نتائج آنا مشکل ہیں۔ ماضی میں عمران خان بھی پوتن سے مل چکے ہیں۔
اس وقت بھی انتہائی اصرار کے باوجود بڑے معاہدے نہیں ہو سکے تھے۔
موجودہ ملاقات شیڈیول نہیں تھی۔ اور یہ صرف ایک خبر کی حد تک اہمیت رکھتی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
ساجد پاکستان کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات تقریباً 20 ارب ڈالر ہیں۔
’ٹیکسٹائل برآمدات کا 80 فیصد سے زائد یورپ امریکہ اور ان کے دوست ممالک کو جاتا ہے۔
’2020 میں پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے پسندیدہ ممالک میں روس کو 25 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔
’کیا پاکستان اس زرمبادلہ کو کھونے کا نقصان برداشت کر سکے گا؟‘
ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ روس کا پاکستانی معیشت کو سہارا دینا بیوقوفوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
’روس کی اپنی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ وہ پاکستان کو سہارا کیسے اور کیوں دے گا؟ وہ یوکرین کے ساتھ جنگ ہار رہا ہے۔
’یوکرین نے اپنے کئی علاقے روس سے آزاد کروا لیے ہیں۔ روس پر عالمی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔
’وہ خود کو بچانے کے لیے ہر طرح کے سستے معاہدے کر رہا ہے۔
’ایسی صورت حال میں پاکستان کو روس کے ساتھ تجارت بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ عالمی برادری کی مخالفت مول لینا پڑے گی۔ جو ہاکستان کے لیے مناسب نہیں۔‘
’امریکہ اور یورپ نے یوکرائن کو تقریبا 40 ارب ڈالرز کی امداد دی ہے اور وہ مزید دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں روس کے مسائل بڑھیں گے۔ جب سے پاکستان بنا ہے روس کے ساتھ تجارتی حجم ایک فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپ ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔‘
’ہر ملک کے لیے اپنی معاشی صورتحال سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی ملک کسی کا دوست نہیں ہے۔
’ہر ملک پہلے اپنی ملکی مفادات دیکھتا ہے اس کے بعد فیصلے کرتا ہے۔ اگر پاکستان نے روس کے ساتھ تجارت یا گیس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کی حامی بھری تو اس سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
’پاکستان کو صرف پاکستان خود ہی معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ کوئی باہر سے آ کر آپ کی مدد نہیں کرے گا۔
’اگر اہل اقتدار اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو ملک میں سیاسی استحکام کا راستہ ہموار کریں۔
’یہ واحد حل ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ چین اور گلف ممالک بھی پاکستان کی مدد کے لیے آگے بڑھنے سے گریزاں ہیں۔
’اس صورت حال میں روس پاکستان کی مدد کیوں کرے گا؟‘
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت سستی توانائی کی فوری ضرورت ہے۔
’اگر پاکستانی حکومت روس سے سستا تیل فوراً منگوا لے تو اس سے نہ صرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کیا جا سکتا ہے بلکہ حال ہی میں بند ہونے والے سینکڑوں ٹیکسٹائل یونٹس دوبارہ کھولے جا سکتے ہیں۔‘
’روس ایک بڑی معاشی طاقت ہے اور فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی سہولت سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا ہے۔
’یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ پاکستان روس سے ملنے والے تیل کو ریفائن نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے پاس روسی تیل کو ریفائن کرنے کی سہولت موجود ہے۔
’اس کے علاوہ روس کے پاس ہر طرح کے پیٹرولیم مصنوعات موجود ہیں۔ ریفائنری کو جواز بنانا غیر سنجیدگی کی علامت ہے۔
’روس ایل این جی کا چوتھا بڑا ایکسپورٹر ہے اور اس کا ریٹ بھی کم ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’صدر پوتن کا گیس پائپ لائن منصوبے پر بات کرنا خوش آئند ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔
’اس حوالے سے اگر امریکہ کو تحفظات ہیں تو انھیں مل بیٹھ کر ختم کیا جا سکتا ہے۔
’اگر امریکہ کے تحفظات دور نہیں ہوتے تو پاکستان کو واشنگٹن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کا متبادل فراہم کرے۔
’یہ پاکستانی خارجہ پالیسی کی کمزوری ہے کہ ہم روس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔
’ہندوستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے اور روس کے ساتھ بڑے معاہدوں میں شامل ہو چکا ہے۔
’اس کے علاوہ حکومت کو گیس کی خریداری سے بھی نکل جانا چاہیے اور یہ سیکٹر نجی اداروں کے سپرد کر دینا چاہیے۔
’اگر نجی ادارے روس سے گیس یا تیل خریدتے ہیں تو امریکہ کو بھی مسئلہ نہیں ہو گا اور پاکستان بھی معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے گا۔‘
پاکستان ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جزل سیکٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ روس سے تجارتی حجم بڑھانے کا ملک کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
’خصوصی طور پر ڈالر کی قدر میں کمی آ سکتی ہے۔ روس آج کل روسی کرنسی روبیل میں معاہدے کر رہا ہے۔
’پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پیٹرولیم مصنوعات کا ہے۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی ڈالر کی بجائے روبیل میں کی جائے تو پاکستان کو اس کا فائدہ ہو گا۔
’لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی برادری کا دباؤ برداشت کر سکے گا یا نہیں؟‘
ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس وقت روس سے تجارتی تعلقات بڑھانے کا ملک کو نہ صرف معاشی نقصان ہوگا بلکہ سفارتی محاز پر بھی پاکستان کو نئے مسائل درپیش ہوں گے۔
روس نے آج تک کسی ملک کی معاشی ترقی میں واضح کردار ادا نہیں کیا۔
پاکستان کے ساتھ تجارت میں زیادہ فوائد روس کے ہیں نہ کہ پاکستان کے۔
روس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بہتری کو معاشی استحکام سے جوڑا نہیں جا سکتا۔