انڈین عدالت عبادت گاہوں کو تحفظ کے قانون کو ختم کر دے گی؟

اکتوبر کے آخر تک وفاقی حکومت کی جانب سے جواب موصول ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ اب 14 نومبر کو اس قانون کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

 وارانسی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

انڈیا کی سپریم کورٹ عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے والے قانون کی آئینی توثیق کا جائزہ لینے جا رہی ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے یہ اقدام ایک ایسے وقت لیا جا رہا ہے جب سخت گیر ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ انڈیا میں کچھ تاریخی مساجد مسمار کیے گئے ہندو مندروں پر تعمیر کی گئی تھیں۔

انڈیا کے مختلف ہندو گروپس اور مندر کمیٹیوں کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان کی جانب سے عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے والے ایکٹ 1991 کی (خصوصی دفعات) کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

اکتوبر کے آخر تک وفاقی حکومت کی جانب سے جواب موصول ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ کا تین رکنی بینچ اب 14 نومبر کو اس قانون کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ قانون کو چیلنج کرنے کا ان کا بنیادی مقصد ’ایک تاریخی غلطی کو درست کرنا‘ ہے تاہم دوسری جانب ملک کی مسلم اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ اس قانون کو ختم کرنے سے انڈیا میں مختلف برادریوں کے درمیان ’بد نیتی، نفرت اور دشمنی کا احساس‘ پیدا ہوگا۔

انڈیا کے انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کے مطابق نو ستمبر کو درخواست گزاروں کے وکلا ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے اور سینیئر ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے کو آئینی بینچ کے پاس بھیجا جانا چاہیے کیوں کہ یہ ’قومی اہمیت کا معاملہ‘ ہے۔

قانونی نیوز پورٹل ’لائیو لا‘ کے مطابق مرکزی حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکیل تشار مہتا نے بدھ کو کہا کہ درخواستوں کا جواب تیار کرنے کے لیے مزید دو ہفتے درکار ہیں حالانکہ اس معاملے کی ابتدائی سماعت میں دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

انڈیا میں رائج اس قانون کے تحت ان مذہبی مقامات کو تحفظ حاصل ہے جو 15 اگست 1947 کو موجود تھے۔ اس دن انڈیا برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک آزاد ملک بنا تھا۔

یہ سماعت اس وقت شروع ہو رہی ہے جب 12 ستمبر کو شمالی ریاست اتر پردیش (یو پی) کی ایک عدالت نے صدیوں پرانی گیانواپی مسجد اور اس کے آس پاس کی زمین کی ملکیت کو چیلنج کرنے والے ایک دیوانی مقدمہ پر کارروائی کی اجازت دی تھی۔

رواں سال کے آغاز میں ایک سروے ٹیم نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے مسجد کے احاطے میں ہندو دیوتا ’شیو لِنگ‘ کے آثار اور ہندوؤں کے دیگر مذہبی نشانات ملے ہیں۔

اس مسجد کا معاملہ ملک میں ہندو مسلم تنازعے کی ایک تازہ مثال بن گئی ہے حالانکہ یہ مسجد وارانسی (بنارس) میں کاشی وشوناتھ مندر کے بالکل قریب برسوں سے موجود ہے۔ وارانسی کو ہندوؤں کا مقدس شہر سمجھا جاتا ہے اور یہیں سے ہی وزیر اعظم مودی لوک سبھا کی نشست پر منتخب ہوئے تھے۔

مسجد کی ملکیت کو چیلنج کرنے والے مقدمے کا فیصلہ بھی وفاقی قانون کے ختم کرنے کی کوششوں سے منسلک ہے۔

ستمبر 1991 میں پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیے گئے اس قانون کی دفعہ تین کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو مکمل یا جزوی طور پر کسی اور مذہب یا فرقے کی عبادت گاہ میں تبدیل کرنے پر پابندی لگاتی ہے۔

اس قانون کی دفعہ 4(2) میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’15 اگست 1947 سے موجود کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو تبدیل کرنے کے لیے دائر کوئی بھی مقدمہ کسی بھی عدالت کے سامنے زیر التوا ہے تو وہ ختم ہو جائے گا اور اس حوالے سے کوئی نیا مقدمہ یا اپیل یا دیگر کارروائی نہیں کی جائے گی۔‘

قانون میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ پورے انڈیا میں لاگو ہو گا لیکن اس کا اطلاق متنازع جموں و کشمیر خطے پر نہیں ہوتا۔

اس قانون میں خاص طور پر اتر پردیش کے ایک اور شہر ایودھیا کی بابری مسجد کو بھی اس کے دائرہ کار سے خارج کر دیا گیا تھا۔

بابری مسجد پر کئی دہائیوں سے جاری تنازع 2019 میں اس وقت ختم ہوا جب انڈیا کی سپریم کورٹ نے اسے ہندو برادری کو سونپنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ کا یہ متنازع فیصلہ مودی کی ایک بڑی جیت کے طور پر دیکھا گیا جن کی پارٹی کے اراکین نے اکثر وہاں مندر کی تعمیر کے لیے ریلیاں نکالی تھیں۔

اس مقدمے میں انڈیا کی سپریم کورٹ کے متنازع فیصلے نے وفاقی حکومت کو تاریخی مسجد کی متنازع جگہ پر ہندو مندر بنانے کی اجازت دے دی جسے 1992 میں دائیں بازو کے کارکنوں نے منہدم کر دیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مسجد کی تعمیر کے لیے علیحدہ زمین الاٹ کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

تاہم ایودھیا کے فیصلے نے عبادت گاہوں کے اس قانون کو برقرار رکھا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون مذہبی مساوات کے لیے ’ایک آئینی وابستگی اور آئینی ذمہ داریوں کو نافذ کرتا ہے‘ اور ملک کے تشکیل کردہ آئین کی بنیادی خصوصیت یعنی سیکولرازم  کا تحفظ کرتا ہے۔

فیصلے نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون ’ماضی کے حکمرانوں کے اقدامات کے خلاف ’تسکین یا سہارا‘ تلاش کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔

اس میں مزید کہا گیا: ’لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر تاریخی غلطیوں کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ عوامی عبادت گاہوں کے کردار کے تحفظ کے لیے پارلیمنٹ نے واضح حکم دیا ہے کہ تاریخ اور اس کی غلطیوں کو حال اور مستقبل پر ظلم کرنے کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘

اس کے باوجود عبادت گاہوں کے قانون کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں نے دونوں جانب سے اس قانون کی درستگی کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے اور کہا ہے کہ ایودھیا کا فیصلہ قانون سازی کی جانچ میں لاگو نہیں ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ اس قانون کی حمایت یا اس کے خلاف دائر کی گئی کم از کم 15 درخواستوں پر سماعت کرے گی۔

اس قانون کی مخالفت میں کھڑے ہونے والوں میں بی جے پی ممبران جیسے اشونی اپادھیائے اور پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن سبرامنیم سوامی شامل ہیں۔

اس مقدمے میں کاشی کے شاہی خاندان، جمعیۃ علما ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نمائندوں کی طرف سے دائر درخواستیں بھی شامل ہیں۔

دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے اس کیس میں ہندو درخواست گزاروں میں سے ایک دویدی نے کہا کہ اس قانون کو کئی وجوہات کی بنا پر چیلنج کیا گیا ہے۔

ان کے بقول: ’پہلا سیکشن، یہ ایکٹ جموں و کشمیر کے علاوہ پورے انڈیا پر لاگو ہوتا ہے جو امتیازی سلوک کا شکار تھا۔ جب کہ تمام ریاستیں آج برابر ہیں کیوں کہ جموں اور کشمیر انڈیا کی مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقہ ہے۔‘

مودی حکومت نے 2019 میں اس متنازع خطے کو دی گئی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ انڈیا کا ہمسایہ ملک پاکستان بھی اس مسلم اکثریتی علاقے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔

ان کے بقول: ’تو اگر کشمیر میں تنازعات اٹھائے جا سکتے ہیں تو دوسرے حصوں میں کیوں نہیں؟‘

مقدمے میں درخواست گزاروں نے قانون کی جانب سے مقرر کردہ 15 اگست 1947 کی کٹ آف تاریخ پر بھی اعتراض کیا ہے۔ ملک کی آزادی کی تاریخ کی واضح حقیقت کے باوجود دویدی اس تاریخ کو ’ظاہری طور پر من مانی‘ کہتے ہیں۔

وہ اپنے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1947 سے پہلے ملک کے لوگ انگریزوں کے ساتھ ساتھ دہلی سلطنت اور دیگر مسلم رہنماؤں کے ’رعایا‘ تھے جنہوں نے ماضی میں ہندوستان کے بہت سے حصوں پر حکومت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس مندر کی زمین پر دوبارہ دعویٰ کرنے یا دوبارہ تعمیر کرنے کی کوئی آواز نہیں تھی۔ جب ہمیں آواز ملی تو آپ کہتے ہیں کہ یہ کٹ آف ڈیٹ ہے۔‘

ان کے بقول: ’عملی طور پر آپ مغل بادشاہوں اور دوسرے مسلم حکمرانوں کے مظالم کو جاری رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے لیے عبادت گاہیں قائم کرنے کے لیے مندروں کو مسمار کر دیا تھا۔‘

قانون کو چیلنج کرنے والے ایک اور ہندو گروپ کی نمائندگی کرنے والے وکیل کے مطابق ان کی دلیل کا وزن دو گنا زیادہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکیل نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’سیکشن 4(2) عدالتی نظرثانی کا اختیار چھین لیتا ہے جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ اسی لیے اس کی جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بابری مسجد کیس کو اس ایکٹ کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔‘

وکیل نے مزید کہا کہ ایودھیا فیصلے سے اس ایکٹ کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیوں کہ یہ ایک دیوانی مقدمہ تھا اور اس میں ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔‘

دویدی کا کہنا ہے کہ جب 2019 کے فیصلے میں جو آبزرویشنز کی گئی تھیں وہ رام جنم بھومی کے بارے میں فریقین کے درمیان تنازع کے تناظر میں تھیں جو بہرحال اس ایکٹ سے مستثنیٰ ہے اس لیے وہاں اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔

ان کے بقول: ’یہ ان مسائل کا فیصلہ نہیں کرتا جو اس معاملے میں پیدا ہو رہے ہیں اور نہ ہی اس میں ایکٹ کی صداقت شامل تھی۔‘

دوسری جانب جمعیت علمائے ہند کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے اعجاز مقبول نے گذشتہ ماہ سپریم کورٹ کو بتایا کہ عبادت گاہوں کا ایکٹ ایک وفاقی قانون ہے اور اس کے ساتھ پہلے سے ہی ’آئین کا مفروضہ‘ منسلک ہے۔

اس قانون کے نفاذ کے حق میں دائر کی گئی اپنی درخواست، جس کا دی انڈپینڈنٹ نے بھی مشاہدہ کیا ہے، میں اعجاز مقبول لکھتے ہیں: ’یہ عرض کیا جاتا ہے کہ 1991 کے ایکٹ کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو فضول تنازعات کا موضوع اور مقدموں میں الجھایا جا رہا ہے جو کہ 1991 کے ایکٹ کے تحت واضح طور پر ممنوع ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’تاہم ایک قانونی تحفظ کی موجودگی کے باوجود اس طرح کی کارروائیوں کو آگے بڑھنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اکثر عبوری احکامات کے ساتھ صدیوں سے موجود مسلم عبادت گاہوں کے سٹیٹس کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

ان کے بقول: ’اس سے نہ صرف برادریوں کے درمیان بد نیتی، نفرت اور دشمنی کا احساس پیدا ہو رہا ہے بلکہ مسلم برادری کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔‘

درخواست میں 2019 کے ایودھیا فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں دلیل دی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو چیلنج کرنے کے لیے دائر کیے جانے والے مزید مقدموں کے سوال کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے ’فضول مقدمے‘ پورے ملک کو فرقہ وارانہ طور پر تقسیم کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو ’برا‘ ظاہر کرنے انداز میں بنائے جا رہے ہیں۔‘

لیکن ہندو فریق کے درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان کی درخواستوں میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا ذکر نہیں ہے جن پر ہندو مندر تعمیر کیے جا سکتے ہیں تاہم ان کے مطابق اس قانون کو ختم کرنے سے مسلمانوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

دویدی کہتے ہیں: اگر بالآخرعدالت اسے ختم کر دیتی ہے تو مسلمان بھی مساوی طور پر مقدمہ دائر کر سکتے ہیں اگر وہ محسوس کریں کہ کسی نے مسجد کی کچھ زمین پر غلط دعویٰ کیا ہے۔‘

ادھر مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس مقدمے میں اپنا جواب عدالت میں داخل کرائے۔ یہ قانون پہلے ہی بی جے پی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔

جولائی میں حزب اختلاف کے قانون سازوں نے اس قانون کو منسوخ کرنے کے لیے راجیہ سبھا میں پرائیویٹ ممبرز بل پیش کیے جانے کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کیا۔

بی جے پی کے رکن ہرناتھ سنگھ یادو کی طرف سے پیش کردہ بل کو ارکان کے غیر حاضر ہونے کی وجہ سے پیش نہیں کیا جا سکا۔

بی جے پی کے کئی ارکان نے گیانواپی مسجد کیس کے دوران اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں۔

بی جے پی کے ارکان نے اس قانون کے نفاذ کے لیے کانگریس پر الزام لگایا ہے جو کہ 1991 میں اقتدار میں تھی۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ دسمبر میں بی جے پی کے رکن پارلیمان رویندر کشواہا نے کہا تھا کہ پارٹی متھرا میں شری کرشن جنم بھومی پر ایک عظیم مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے قانون کو منسوخ کر سکتی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان آر پی سنگھ نے کہا کہ پارٹی اس مقدمے پر اپنی رائے نہیں دے سکتی کیوں کہ یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے حکومت سے جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ عدالت کیا کہتی ہے اور حکومت کیا جواب دیتی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ اگر عدالت قانون کی آئینی حیثیت کو برقرار رکھتی ہے تو کیا پارٹی کسی پارلیمانی راستے کی تلاش کرے گی جس میں قانون میں ترمیم بھی شامل ہے؟ جس پر آر پی سنگھ نے کہا: ’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے اور ہم اس کے بعد ہی تبصرہ کر سکتے ہیں۔‘

تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت اس قانون کو ختم کرتی ہے تو اس سے ایسے مزید کیسز کی راہ ہموار ہوگی۔

آئینی قانون کے ماہر اور این اے ایل ایس اے آر یونیورسٹی آف لا حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ کہتے ہیں: ’کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن پہلے عدالت یہ مانے گی کہ یہ قانون آئینی ہے۔ کوئی بھی جو آئین کو چیلنج کر رہا ہے اس پر یہ ثابت کرنے کا بھاری بوجھ ہو گا کہ یہ قانون غیر آئینی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پارلیمانی قانون کو غیر آئینی ثابت کرنے کے لیے دو میں سے ایک شرط پر پورا اترنا ضروری ہے۔

اول یہ کہ یہ معاملہ ریاستی فہرست میں ہے اور پارلیمنٹ کو فہرست میں شامل سبجیکٹ پر قانون بنانے کا اختیار نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کسی بھی بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔

ان کے بقول: ’یہی وہ نکتہ ہے جہاں یہ درخواستیں بہت دلچسپ طریقے سے دونوں دلائل کو اٹھاتی ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سپریم کورٹ ان دلائل پر کیا رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ لیکن اگر یہ قانون بابری مسجد کے فیصلے کے خلاف جائے گا تو اس سے کئی مزید مقدمات بھی کھلیں گے اور ایک پنڈورا بکس کھل جائے گا جو ترقی پسند جمہوریت کے لیے اچھا شگن نہیں ہوگا۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا