نوشہرہ میں بچے کی مبینہ خودکشی: خاندان کی احتجاج کی دھمکی

خیبر پختون خوا کے ضلع نوشہرہ میں 13 سالہ بچے کی لاش اس کے مالکان کے باتھ روم سے برآمد ہوئی، خاندان اور اہل علاقہ دو روز تک احتجاج کیا جو پولیس کی یقین دہانیوں کے بعد ختم کیا گیا۔

نوشہرہ پولیس نے امجد علی کی موت کے سلسلے میں آئندہ تین روز میں تفتیش کے نتائج اخذ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے (امجد علی کا خاندان)

نوشہرہ پولیس نے 13 سالہ بچے کی ہلاکت کی تفتیش کے تین دن میں نتائج اخذ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، جبکہ اہل علاقہ اور خاندان نے ناکامی کی صورت میں پشاور میں احتجاج کی دھمکی دی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں علاقہ ڈھیری خیل میں رواں ہفتے 13 سالہ امجد علی جس گھر میں کام کرتا تھا کہ واش روم میں مردہ حالت میں پایا گیا۔

امجد علی جہاں کام کرتا تھا اس گھر والے اس کی موت کو پھندا لگا کر خودکشی قرار دے رہے ہیں، جبکہ اہل علاقہ نے اس ناگہانی واقعے کے بعد احتجاج بھی کیا، جو پولیس کی یقین دہانی کے بعد ختم کر دیا گیا۔

ایس ایچ او تھانہ نوشہرہ کلاں مراد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تفتیش کی غرض سے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں، جبکہ گھر کے سربراہ، اس کے بیٹے اور ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

امجد علی کے ایک رشتہ دار عبدالسلام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نوعمر بچے کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کے لیے نہ صرف اہل علاقہ بلکہ ضلع کوہستان سے بھی سینکڑوں افراد نوشہرہ آئے ہوئے ہیں، اور تین دن میں پولیس تفتیش کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے کی صورت میں صوبائی دارالحکومت پشاور میں احتجاج کیا جائے گا۔

پس منظر

عبدالسلام نے، جو امجد علی کے ماموں زاد ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے خاندان کا تعلق ضلع کوہستان سے ہے، تاہم گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ نوشہرہ میں رہائش پذیر ہیں۔

’موسم سرما میں ان کے قریبی رشتہ دار اکثر میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہوئے ان کے ہاں عارضی سکونت اختیار کر لیتے ہیں، اور امجد علی کا خاندان بھی عارضی طور پر ہمارے ہاں مقیم تھا۔‘

عبدالسلام نے مزید بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ان کے پڑوس میں ایک متوسط خاندان کی خاتون نے گھر کا چھوٹے موٹے کاموں کی خاطر امجد علی کو اپنے پاس رکھنے کی پیشکش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ امجد علی کے والدین نے خاتون کے بچے کو تعلیم دلوانے اور اس کا دوسرا خرچہ برداشت کرنے کے وعدے پر اپنے بیٹے کو بغیر تنخواہ کے وہاں کام کرنے کی اجازت دے دی۔

عبدالسلام کا کہنا تھا کہ اس خاتون نے امجد علی کے والدین کو ان کے بیٹے کو جائیداد سے نوازنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ’ہم غریب لوگ ہیں، انہی وعدوں کے باعث امجد کو ان کے حوالے کر دیا گیا، اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگا، یہاں تک کہ وہ گھر بھی بہت کم آتا تھا، اکثر ہفتے میں ایک دن چکر لگا لیا کرتا تھا۔‘

عبدالسلام نے تصدیق کی کہ امجد علی کو گھر میں صفائی ستھرائی اور بازار سے سودا سلف لانے جیسے کاموں کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا تھا۔

امجد علی کے رشتہ دار نے کہا کہ بچے کی موت سے متعلق اطلاع بھی اس کے خاندان کو متوسط خاندان کی اسی خاتون نے صبح نو بجے آ کر دی، اور ساتھ میں بتایا کہ ہمارے بیٹے نے خود کشی کر لی ہے۔

’جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچے تو واش روم کا دروازہ کھلا تھا، اور امجد کی لاش ٹیڑھی میڑھی پڑی تھی، مٹھی بند تھی، آنکھیں کھلی، اور گلے میں پھندے کا نشان تھا۔‘

عبدالسلام نے مزید بتایا کہ لاش کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ واقعہ کئی گھنٹے پہلے کا ہے، اور عین اسی کمرے کے واش روم میں لاش پڑی تھی، جہاں مالک اور مالکن رہتے ہیں۔

‘عبدالسلام نے کہا: ’ہمیں شک ہے کہ امجد کی موت واش روم میں نہیں ہوئی ہے، کیونکہ جب ہم نے اس کے مٹھی کھولی تو اس میں لان کی گھاس موجود تھی۔ ہسپتال پوسٹ مارٹم کے لیے میں خود لے کر گیا تھا، وہاں معائنہ کے وقت اس کی کمر پر نیلے نشانات بھی تھے۔‘

ان کے مطابق امجد علی جن کے گھر میں کام کرتا تھا وہ عمر رسیدہ جوڑا ہے، اور ان کے دو شادی شدہ بچے ہیں، جبکہ بیٹے کو ناچاقی کے باعث گھر سے نکالا جا چکا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے امجد کے آجر خاندان سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر فی الحال کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امجد علی اور چائلڈ لیبر

امجد علی کی عمر محض 13 سال تھی، اور اس نوعمری میں ایک گھریلو نوکر کے طور پر کام کر رہا تھا۔

پاکستان میں بچوں سے کام کاج کروانے ایک سنگین مسئلہ ہے، جس پر عالمی اور ملکی قوانین کی موجودگی کے باوجود قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

خیبر پختونخوا میں حقوق اطفال کے لیے سرگرم سوشل ورکر عمران ٹکر نے کا کہنا تھا کہ امجد علی جیسے واقعات کو اکثر خودکشی کا رنگ دے دیا جاتا ہے، جبکہ 90 فیصد امکانات موت کسی دوسرے طریقے سے ہونے کے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دستور پاکستان 14 سال سے کم عمر شہریوں سے مشقت کروانے کی ممانعت کرتا ہے، اور ایسے میں بچوں کو بطور نوکر یا مزدور گھروں میں رکھنا ایک بڑا سوال ہے۔

سوشل ورکر عمران ٹکر نے مزید کہا کہ اکثر با اثر خاندان امجد علی جیسے واقعات میں اپنے اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے متاثرہ خاندان سے راضی نامے کی کوشش کے علاوہ اداروں کو بھی رشوت کی پیشکش کرکے کیس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’یوں کیس دب جاتا ہے، اور گرفتاریاں ہونے کے باوجود ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔‘

عمران ٹکر نے کہا کہ وہ امجد علی کے کیس کی پیروی کرتے ہوئے اسے دبنے نہیں دیں گے، اور ملزمان کو کیف کردار تک پہنچانے کی پوری کوشش کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان