روپے کی قدر میں کمی، قندھاری انار بھی مہنگے

قندھاری انار اس وقت وافر مقدارمیں کوئٹہ کی مارکیٹوں تک پہنچ چکے ہیں لیکن مہنگے ہونے کے باعث اکثر لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں اور لوگ صرف قیمت کا پوچھ کے واپس چلے جاتے ہیں۔

کوئٹہ اور اس کے گردونواح کے بازار اس وقت سرخ قندھاری اناروں سے بھرے ہوئے ہیں، جو لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ یہ انار زیادہ تر افغانستان سے لائے جاتے ہیں۔

اگرچہ قندھاری انار اس وقت وافر مقدارمیں کوئٹہ کی مارکیٹوں تک پہنچ چکے ہیں لیکن مہنگے ہونے کے باعث اکثر لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں اور لوگ صرف قیمت کا پوچھ کے واپس چلے جاتے ہیں۔

کوئٹہ شہر کے سید انور نے سڑک کنارے انار سجا رکھے ہیں۔ وہ بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ٹیکس میں اضافے کو اناروں کی قیمت بڑھنے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

سید انور نے بتایا کہ قندھاری انار کا دانا بڑا اور چھلکا کاغذی ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ انار ہر جگہ بھیجا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں سے انار آتے ہیں جن میں کابل، ارغسان اور ارغنداب شامل ہیں۔ اسی طرح بلوچستان سے بھی آتے ہیں۔

سید انور کے بقول: ’قندھار سے تین قسموں کے انار آتے ہیں جن میں ارغسان کے انار کا چھلکا موٹا ہوتا ہے، ارغنداب کے انار کا چھلکا نرم اور دانا بڑا ہوتا ہے اور ایک کابل سے آتا ہے جس کا بیج نہیں ہوتا ہے۔ دانہ ہوتا ہے لیکن وہ اس طرح ہوتا ہے جیسے مونگ پھلی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’مہنگائی کی ایک وجہ اس سال ٹیکس میں اضافہ بھی ہے۔ ہم لوگوں سے فی ٹن 80 ہزار روپے ٹیکس لیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ہمیں فی کارٹن 50 روپے مہنگا پڑتا ہے۔

’اس کے علاوہ اس بار کارٹن کا سائز اور وزن بھی کم کردیا گیا ہے۔ پہلے یہ دس سے گیارہ کلوگرام تک ہوتا تھا۔ اس بار یہ سات سے نو کلو گرام کے وزن کا ہے۔ وزن کم ہونے کے ساتھ نرخ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انار اس سال بہت مہنگا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سید انور نے بتایا کہ ڈالر اور افغانی کرنسی کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے پچھلے سال کے سستے انار کی نسبت اس مرتبہ ریٹ زیادہ ہے یعنی فی کارٹن نرخ میں دو سے تین سو روپے کا فرق ہے۔

’کوئٹہ میں اس وقت اچھا اور میٹھا انار ڈھائی سو روپے سے تین سو روپے فی کلو تک مل رہا ہے جبکہ کمزور انار جو لوکل ہے، وہ سو، ڈیڑھ سو یا دو سو روپے فی کلو تک بھی مل جاتا ہے، لیکن اس کا ذائقہ بھی بہتر نہیں ہے۔‘

سید انور نے بتایا کہ ’انار کا سیزن تین مہینے تک چلتا ہے۔  بلوچستان میں سیزن ایک ماہ کا ہے۔ ایک مہینہ سٹور کا مال ملتا ہے۔ جو اچھا انار ہے اور جس کا چھلکا نرم ہوتا ہے وہ صرف یہاں ملتا ہے۔ پنجاب اور دوسرے علاقوں میں موٹے چھلکے والا انار جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’اس بار انار بھی چھوٹے ہیں، بڑے والے نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے اچھے انار بیرون ملک بھیجے جا رہے ہیں، ہمارے لیے وہ چھانٹی کر کے چھوٹے بھیجتے ہیں۔‘

بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن سے افغانستان کے صوبہ قندھار کی سرحد لگتی ہے، جہاں لوگوں کی آمدورفت کے لیے دروازہ بھی بنایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا