عمران خان الیکشن لڑنا چاہیں تو لڑ سکتے ہیں: اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ان کی نااہلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ فوری طور پر معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

22 ستمبر 2022 کی اس تصویر میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت مقدمے لیے عدالت آتے ہوئے(اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ان کی نااہلی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ فوری طور پر معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی لیکن سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان الیکشن لڑنا چاہیں تو لڑ سکتے ہیں۔

سوموار کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مصدقہ نقل ساتھ نہ لگانے پر رجسٹرار آفس کا اعتراض برقرار رکھا اور عمران خان کو تین روز میں رجسٹرار آفس کا اعتراض دور کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نےعمران خان کی نااہلی کا فیصلہ آج ہی معطل کرنے استدعا بھی مسترد کر دی۔

 عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مصدقہ فیصلہ آنے سے پہلے حکم امتناع جاری نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’جس قانون کے تحت عمران خان نااہل ہوئے وہ توصرف اسی نشست کی حد تک ہے۔ عمران خان دوبارہ الیکشن لڑنا چاہیں تو لڑسکتے ہیں۔ عمران خان پر الیکشن لڑنے کی کوئی پابندی نہیں۔‘

آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’درخواست پر اعتراضات کیا ہیں؟‘

علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ’ایک بائیو میٹرک تصدیق کا اعتراض تھا۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ الیکشن کمیشن فیصلے کی مصدقہ نقل نہیں لگائی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری ہی نہیں کیا تو صرف دو صفحے ہی ملے ہیں۔‘

جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا علی ظفر سے استفسار کیا کہ ’اس کیس میں جلدی کیا ہے؟‘

بیرسیٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’عمران خان کو نااہل قرار دیا گیا اور انہوں نے آئندہ الیکشن لڑنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس پر پراسیکیوٹ کرنے کا بھی کہا۔ الیکشن کمیشن نے یہ معاملہ ٹرائل کے لیے بھجوانے کا بھی کہا ہے۔‘

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ’کمیشن نے صرف شکایت بھجوانے کا کہا ہے۔‘

علی ظفر نے جواباً کہا کہ ’نااہلی کا ایک سٹگما ہے جس کا آئندہ انتخابات پر اثر ہو گا۔ ڈس کوالیفکیشن سے عوام کے ذہنوں پر اثر پڑے گا۔ مختصر آرڈر ساتھ لگایا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی نااہلی ہوتی رہی، کوئی سیاسی طوفان نہیں آتا۔ جب تفصیلی مصدقہ فیصلہ ہی نہیں ہے تو عدالت کس آرڈرکومعطل کرے گی؟ آپ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیں۔ کیا آپ کے پاس شارٹ آرڈر کی مصدقہ نقل ہے؟‘

اس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ اس کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے، عدالت الیکشن کمیشن سے منگوالے۔‘

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ’یہ نااہلی صرف بطور رکن اسمبلی ہے۔‘

جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ ’عوام کو تو یہ نہیں پتہ۔ الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ پرفیصلہ جاری کیا مگرہمیں مصدقہ نقل نہیں دی۔‘

 چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ’اگر تین روز میں آپ کو کاپی نہ دی تو ہم اس کو دوبارہ سنیں گے۔ ہم بھی اکثرایسا کرتے ہیں کہ فیصلہ اناؤنس ہوجاتا ہے اورتفصیلی فیصلہ بعد میں آتا ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں تین روزمیں آپ کو مصدقہ کاپی مل جائے گی۔‘

علی ظفر نے مزید کہا کہ ’میڈیا کے پاس فیصلے کی کاپیز آگئیں جن پر پروگرام ہوئے۔ الیکشن کمیشن نے اس پر کوئی اعتراض بھی جاری نہیں کیا۔ ہماری استدعا ہے کہ آپ الیکشن کمیشن سے فیصلہ منگوالیں۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرے گی۔ آئین کے تحت ایک پروسیڈنگ ہوئی، فیصلے کی مصدقہ نقل آپ کو نہیں ملی۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’آپ کے موکل تو پارلیمنٹ جا ہی نہیں رہے۔ ہم آبزرو کردیں گے مگر ہدایات جاری نہیں کریں گے۔ آپ نے جو پیپر لگایا ہے اس پر تو کسی کے دستخط ہی نہیں۔‘

عمران خان کے وکیل علی ظفر نے استدعا کی کہ ’آپ زبانی حکم جو اناؤنس کیا گیا تھا وہ معطل کردیں۔‘

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے تو نہیں ہوا تھا۔‘

علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نااہلی فیصلے کے بعد لوگ سڑکوں پر نکل آئے،عمران خان نے روکا۔ الیکشن آرہے ہیں، عمران خان نے الیکشن لڑنا ہے۔ ہمیں خدشہ ہے الیکشن کمیشن فیصلہ تبدیل کردے گا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، فیصلہ کیسے تبدیل ہوسکتا ہے؟‘

بعد ازاں عدالت نے سماعت تین دن کے لیے ملتوی کر دی۔

21 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے چئیرمین تحریک انصاف عمرں خان کو نااہل کر دیا تھا جبکہ 22 اکتوبر کو تحریک انصاف نے فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

 

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست